خالد سہیل اور رابعہ الربا کے نام ایک مکتوب


آداب!

آپ کی اور رابعہ کی گفتگو کا سلسلہ ” درویشوں کا ڈیرا“ کی صورت میں ہاتھ لگا ۔ اور اسے پڑھتے پڑھتے میں دو درویشوں کی دنیا میں ایسی کھوئی کہ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے کسی وظیفے کی طرح دن رات اسے جاپتی رہی ۔اور دو سے تین دن کے اندر اسے ختم کر کے دم لیا۔لیکن آخری خط پڑھتے وقت میں شدید بے چینی میں مبتلا ہو گئی ۔کہ باتیں تو ابھی بہت سی تھیں جو پوچھنا بتانا باقی تھیں۔کسی انڈین فلم کا مکالمہ ذہن کی غلام گردشوں میں گھومتا رہا کہ ” پکچر ابھی باقی ہے“ ۔ لیکن لطف تو اس بات کا رہا کہ ایک طرف خدا اور مذہب کی حقانیت پر مکمل یقین رکھنے والی سادہ طبیعت کی مالک رابعہ ہے اور دوسری طرف ایک ایسا آدمی جو ان نظریات سے ماورا کسی اور ہی دنیا کا مسافر ہے۔رابعہ کی اپنی ایک خوابوں کی دنیا ہے جس میں وہ اکیلے سفر کرتی ہے۔اپنے کردار تخلیق کرتی ہے ان سے مکالمہ کرتی ہے زندگی کے رمزیں سمجھتی ہے اور انہیں تحریر میں لاکر پڑھنے والوں کو اس سفر میں شریک کرتی ہے۔زندگی کے تلخ اور شیریں تجربات و مشاہدات کی روشنی میں جینے کا جتن کرتی ہوئی رابعہ بصریؒ کے آئیڈیل کو سامنے رکھتی ہے۔یوسف ؑکے تقویٰ سے متاثر ہے جب وہ بات کرتی ہے تو احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتی ۔سوال کرتی ہے تو خوبصورتی سے نفس اور خواہش کی سنگت اور تضادات دونوں پر بات کرتی ہے ۔مثلاً تیسرے خواب نامے میں وہ اپنے اور درویش کے مذہبی تضاد پر رقم طراز ہے ” اسے یہ معلو م نہیں کہ درویش اور اس کا اللہ ایک ہی ہے یا الگ الگ ؟مگر وہ درویش کو اپنے اللہ کے حوالے کر رہی ہے کیونکہ جینے کے لیے کسی ان دیکھی طاقت کاسہارا ضروری ہے“۔

سوال جواب کے اس سلسلے میں درویش ایک عالم شخص ہے جس کی تحریریں انسانی نفسیا ت کے مختلف پہلوؤں کے دروا کرتی ہیں جس کے بارے میں رابعہ، عرفان الحق صاحب کی بات نقل کرتی ہے کہ ” جو انسانوں کو پڑھتا ہے وہ درویش بن جاتا ہے“ ۔ انسانوں کو پڑھنے کا ایک طویل سفر کرنے والا یہ درویش رابعہ بصریؒ کے کردار سے متاثر ہے اوررابعہ الربا سے مکالمے کا آغاز بھی اسی بنیاد پر کرتا ہے ۔اس مکالمے کے دونوں کردار حضرت رابعہ بصری ؒ سے متاثر ہیں۔ دونوں تصوفا نہ طرز فکرکے حامی ، دونوں ا پنی زندگی کے معاملات سے پردہ اٹھاتے ہیں ایک دوسرے سے سوال کرتا ہے جواب چاہتا ہے پھر دوسرا سوال کرتا ہے اور پہلا جواب چاہتا ہے ، مرد اور عورت کے مابین دوستی ، محبت اور جنس جیسے موضوعات پر اپنا اپنا خیال پیش کر تے چلے جاتے ہیں۔اور مکالمے کی ایک ایسی فضا قائم ہوتی چلی گئی کہ جس میں قاری بہتا ہی چلا جاتا ہے۔رابعہ پاکستانی معاشرے میں پروان چڑھنے والی عورتوں کے مافی الضمیر کو بہ خوبی سمجھتی ہے اس لیے اس کی ہربات میرے جیسے پڑھنے والوں کو ان کی اپنی بات اپنے تحفظات اور سوالات ہی محسوس ہوتے ہیں۔ڈاکٹر خالد سہیل مرد اور عورت کے رشتوں کے مابین الجھنوں کو سلجھانے میں اپنے تجربے اور مشاہدے کو بروئے کار لاتے ہیں۔

خطوط کے ذریعے بہت اہم مضامین پر بات کا انداز نیا نہیں ہے لیکن ایک مرد جو اپنے شعبے میں ماہر ہے ادیب ہے شاعر ہے اور مختلف معاشروں کا مطالعہ رکھتا ہے اور ایک ایسی خاتون جو ادیبہ ہے اور ادیب ہونے کے ساتھ انسانی نفسیات پر غور وفکر کرتی ہے اپنے نظریات رکھتی ہے پر اعتماد ہے اور جنس کے امتیازات سے بالاتر ہو کر مختلف موضوعات پر اپنی رائے دے سکتی ہے ، میر ی اب تک کی معلوم ادبی اور علمی تاریخ میں یہ اپنی طرز کی پہلی تحریری کاوش ہے ۔جو قارئین کے لیے زبان کے چٹخارے کے ساتھ ساتھ ذہنی غذا کا باعث بھی بنے گی۔اس کتاب کا ایک ایک خط اور ہر خط کے موضوعات پر بات کرنے بیٹھیں تو ایک اور کتاب ترتیب پا جائے ۔میری خواہش ہے کہ یہ دونوں درویش اس سلسلے کو جاری رکھیں ۔ کیونکہ آخری خط پڑھتے ساتھ ہی مجھے دکھ ہوا کہ باتیں ختم کیسے ہو گئیں ۔ہزار راتیں تو ابھی مکمل نہیں ہوئیں کہ مجھے شہرزاد کے قصے کی طرز پر ہر روز سوچنے اور سمجھنے کے لئے ایک نئی بات چاہئے ۔ سیکھنے کو نیا ڈھنگ چاہئے اور جینے کے لئے زندگی میں رنگ۔۔۔۔

                     خیر اندیش۔۔۔

                     شمائلہ حسین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).