الہ آباد کا نام اب قدیم ہندو شہر کے نام پر پریاگ راج


انڈیا کے مشہور شہر الہ آباد کا نام بدل کر ہندوؤں کے قدیم شہر کے نام پر ’پریاگ راج‘ کر دیا گیا ہے۔

یہ فیصلہ آج وزیر اعلی کی صدارت میں اتر پردیش کی کابینہ نے متفقہ طور پر کیا ہے۔

حزب اختلاف کی جماعتوں نے نام بدلنے کی مخالفت کی تھی ۔

کابینہ کی میٹنگ کے بعد ایک نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سینیئر وزیرسدھارتھ ناتھ سنگھ نے کہا کہ ‘آج کابینہ میں الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کرنے کی تجویز کی منظوری کے لیے پیش گی گئی تھی۔ کابینہ کے سبھی ارکان نے اس پر خوشی ظاہر کی اور اسے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ آج سے الہ آباد پریاگ راج کہلائےگا۔‘

سدھارتھ ناتھ سنگھ نے بتایا کہ اس کے لیے اب مزید جو اقدامات کیے جانے ہیں وہ کیے جائیں گے۔ جو مرکزی ادارے ہیں، سبھی کو اس سلسلے میں خط لکھا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا ‘الہ آباد کے لوگ، سبھی سادھو سنت الہ آباد کو پریاگ راگ راج کے نام سے جاننا چاہتے تھے۔ ان سبھی نے متفقہ طور پر اس کی توثیق کی تھی۔’

ہفتے کے روز ریاست کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ 2019 کے کمبھ میلے سے پہلے اس شہر کا نام تبدیل کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے۔ حزب اختلاف نے اسے ہندو ووٹ بینک کی سیاست سے تعبیر کیا تھا اور اس کی مخالفت کی تھی۔ سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے کہا کہ بی جے پی کی حکومت اپنی حکومت کی کارکردگی صرف شہروں کے نام بدل کر دکھانا چاہتی ہے۔

کانگریس نے بھی بی جے پی کی حکومت کے فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ الہ آباد کا نام بدلنے سے اس شہر کی تاریخ پر اثر پڑے گا۔ اس شہر نے ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

حزب اختلاف کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس مقام پر ہندوؤں کا کمبھ میلہ لگتا ہے اس کا نام پہلے سے ہی پریاگ راج ہے اور اگر حکومت نام بدلنا ہی چاہتی ہے تو وہ انہیں دو الگ الگ شہر بنا سکتی ہے۔

موجودہ الہ آباد شہر مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے 1574 میں بسایا تھا۔ یہ شہر گنگا جمنا کے سنگم پر واقع ہے۔

کوشامبی اور پریاگ کا قدیم نام ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں آیا ہے۔ اس کے مطابق یہ گنگا جمنا اورسروستی کے سنگم پر واقع تھا۔

سرسوتی دریا کا اب وجود نہیں ہے۔ لیکن ہندوؤں کے دو مقدس ترین دریاؤں کے سنگم پر اب بھی ہر برس میلے لگتے ہیں۔ ہر بارہ برس بر مہا کمبھ کا انقعاد ہوتا ہے جسے دنیا میں کسی ایک مقام پر انسانوں کا سب سے بڑا اجتماع بتایا جاتا ہے۔

ایک برس قبل اتر پردیش کی حکومت نے ریاست کے مشہور ریلوے سٹیشن مغل سرائے کا نام بدل کر ہندوتوا کے ایک رہنما دین دیال اپادھیائے کے نام پر رکھ دیا تھا۔

مرکز میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد ملک کی تاريخ کے مسلم حکمرانوں کے ایک ہزار سالہ دور کو ہندو تہذیب و تمدن کے لیے ایک سیاہ دور کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے۔ تاریخ کی نئی تشریح کی جا رہی ہے اور سبھی مسلم حکمرانوں کو ظالم، حملہ آور اور غا‏رت گر کے طور پر دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بی جے پی سے قبل تاریخ کی کتابوں میں تاریخ کے ہر دور کو انڈین تہذیب و تمدن کا تسلسل اور حصہ تصور کیا جاتا تھا۔

لیکن آر ایس ایس اور ہندوتوا کے علمبرداروں کا نظریہ ہے کہ مسلم حکمرانوں نے انڈیا کی ہندو تہذیب کو آگے بڑھنے سے روک دیا تھا اور علم و دانش میں اس کی عظیم کامیابیوں کو بے پناہ نقصان پہنچایا تھا جس کے سبب وہ آج یوروپ اور امریکہ سے پیچھے رہ گئے۔

ہندوتوا کے اس نظریے کو پڑھے لکھے اور متوسط طبقے میں خاصی مقبولیت حاصل ہے۔ نام بدلنے اور ماضی کے مسلم حکمرانوں کی علامتوں اور نشانات کو مٹانے جیسے اقدامات کو ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ تاریخ کی غلطیوں کو دور کرنے سے تعبیر کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp