تمھارا اور میرا نام، جنگل میں، درختوں پر، ابھی لکھا ہوا ہے


دروازے پر مسلسل دستک سن کے ناچار آ کے اُٹھا۔ گھر کے دو ہی فرد تھے، ایک میں اور دوسرا امی۔ امی اسکول میں پڑھاتی تھیں، اور اُن دِنوں میں فرصت کے رات دِن گزار رہا تھا۔ امی ملازمت پر جانے سے پہلے، میرے لیے ناشتا بنا کے رکھ جاتیں، اور میں دِن دَس گیارہ بجے اُٹھ کے وہی ناشتا گرم کرتا۔ اِس دو منزلہ مکان کے اوپر کے پورشن میں صحن تھا، برآمدے کے سامنے لوہے کا جالی والا دروازہ، اور اس کی بغل میں بیٹھک کا دروازہ۔ میں بیٹھک میں سوتا تھا۔ امی جالی والے دروازے کو باہر سے تالا لگا کے جاتی تھیں۔ ایسے میں باہر نکلنے کے لیے ایک بیٹھک ہی کا دروازہ تھا۔ دروازہ کھولا، تو اپنے سامنے ایک پندرہ سولہ سالہ لڑکی کو جھجکے سمٹے کھڑا پایا۔

”جی‘‘؟
میں نے بے زار لہجے میں پوچھا، تو پہلے وہ سہم گئی۔ پھر ہچکچاتے ہوئے کہا۔
”میں اندر آ جاوں‘‘؟
”آپ کون‘‘؟

مجھے کچھ کچھ اندازہ تھا، کِہ یہ لڑکی یہاں تک کیسے آئی ہو گی۔ میری گہری نیند سے دوست دشمن سبھی واقف ہیں، کِہ چور گھر صاف کر کے لے جائے، میرے فرشتوں تک کو خبر نہ ہو۔ اس لیے امی بیرونی دروازے کو بھی تالا لگا جایا کرتی تھیں۔ نچلے پورشن میں کرائے دار رہتے تھے، زینے کا ایک راستہ وہاں سے بھی تھا۔
”میں گل بانو کی بہن ہوں‘‘۔
گل بانو نچلے پورشن میں رہنے والے کرائے دار محمد خان کی بیوی تھی۔ محمد خان سرکاری دفتر میں ملازم تھا۔

میں دروازہ روک کے کھڑا تھا، متذبذب ہو کے اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔ دروازے کے ساتھ ہی سوفا تھا۔ وہ یوں بیٹھ گئی، جیسے خطرہ بھانپتے اُٹھ بھاگے گی۔ میں ایک طرف خاموش کھڑا تھا، کِہ مدعا بیان کرے۔
”آپ صدر جاتے ہیں، تو مجھے گانے بھروا دیں گے‘‘؟
اُس نے کیسٹ سامنے کرتے پٹھانی لہجے میں سوال کیا۔
”کیوں نہیں! کوئی لِسٹ بنائی ہے، آپ نے؟ کون سے گانے‘‘؟

”جو بھی آپ کو پسند ہوں‘‘!
مجھے یقین نہیں آیا، کِہ میں نے جو سنا، اُس کا وہی مطلب ہے، جو ایک نوجوان کے ذہن میں آ سکتا ہے۔
”میری پسند کا آپ کو کیا پتا! آپ بتائیے‘‘!
”جو آپ کو اچھے لگیں، وہی بھروا لائیے‘‘۔
میں نے دِل میں اُچھلتی ان خوش فہمیوں کو دبا دِیا، کِہ یہ کیسٹ میں گانے بھروانے نہیں، مجھ سے بات کرنے آئی ہے۔

دوسرے روز دستک پہ دروازہ کھولا، تَو وہی منظر تھا۔
”گانے بھروا لائے‘‘؟

میں بھول گیا تھا، یا پتا نہیں کیا ہوا، اُسے کہا، کل بھروا لاوں گا۔ اُس کو لوٹ جانا چاہیے تھا، لیکن وہ ٹھیری رہی۔ یہ آغاز تھا، شیریں بانو اور میری محبت کا۔
”تمھارا اور میرا نام، جنگل میں، درختوں پر، ابھی لکھا ہوا ہے، تم کبھی جا کے مٹا آو‘‘۔
جنید جمشید کی کیسٹ کا نیا والیوم بازار میں آیا تھا؛ اس میں سے یہ گانا میں بہت سنا کرتا تھا۔ یہی کیسٹ اس کو خرید دی۔

وہ روز کسی نہ کسی بہانے سے چلی آتی۔ مثلا کبھی کچھ کھانے کو لے آنا، تو کبھی کچھ۔ چند روز میں مجھے یقین ہو گیا، کِہ جس کو میں پہلے خوش فہمی سمجھا تھا، بات وہی سچ ہے۔ یہ لڑکی یونھی نہیں چلی آتی؛ اِسے مجھ میں دِل چسپی ہے۔ ایسے ہی بات چلتی رہی، کہانی بڑھتی گئی۔ یوں ہماری درمیان سے جھجک اٹھتی گئی۔
”میں گھر میں اکیلا ہوتا ہوں، تم یہاں آ جاتی ہو، ڈر نہیں لگتا‘‘؟
”نہیں‘‘!
جواب دیتے اُس کا چہرہ حیا سے لال پڑ گیا۔

”تمھاری بہن کو پتا ہے، تم مجھ سے ملنے آتی ہو‘‘؟
”ہاں‘‘!
اُس نے شرماتے ہوئے اقرار کِیا۔ مجھے پیار میں شرارت کی سوجھی۔
”اگر میں نے کچھ ایسا ویسا کر دِیا تو‘‘؟
”مجھے پروا نہیں۔ میں آپ کی ہوں‘‘!

شیریں معمولی شکل صورت کی لڑکی تھی، لیکن جوانی کا اپنا رُوپ ہوتا ہے۔ پہلے پہل جس لڑکی کے آنے پر نیند میں خلل پڑنے کی جھنجلاہٹ ہوتی تھی، اب نیند کے عالم میں بھی کان اُس کے انتظار میں دروازے پر لگے رہتے۔ کوہاٹ کے قریب اُس کا گاؤں تھا؛ یقینا آج بھی وہیں ہو گا۔ وہ میٹرک کے امتحان دے کر، بہن کے یہاں چھٹیاں گزارنے آئی تھی۔
”تم مجھ سے آٹھ نو سال چھوٹی ہو‘‘۔
”یہ فرق زیادہ تو نہیں ہے‘‘۔

اس سے پہلے میرا معمول یہ تھا، کِہ میں اُٹھ کے ناشتا کرتا، کپڑے استری کرتا، نہا دھو کے موٹر سائکل لیتا، اور بنک روڈ پر دوست کی دُکان پر جا بیٹھتا۔ ذمہ داری کوئی تھی نہیں، شب و روز بے فکری میں بسر ہوتے۔
”آخر مجھ میں کیا دیکھا، جو مجھ پہ فدا ہو گئیں‘‘؟
اس نے بتایا، کِہ میں روز تیار ہو کے گھر سے نکلتا، تو وہ مجھے دیکھا کرتی تھی۔ اِس سے پہلے اُس نے اپنی بہن کے منہ سے میری خوش لباسی کی تعریف سن رکھی تھی (جی! کبھی میں خوش لباس ہوا کرتا تھا)۔ وہ اسی تجسس کے مارے مجھے چھپ چھپ کے دیکھا کرتی تھی۔

میرے ساتھ یہ پہلی بار ہوا تھا، کِہ کسی لڑکی نے محبت میں پہل کی ہو۔ ہمارے بیچ میں فلموں کہانیوں والے ظالم سماج کی کوئی دیوار نہ تھی۔ رفتہ رفتہ شیریں اور میرے درمیان تکلف کا ایک بھی حجاب نہ رہا؛ پردہ تھا تو ایک، اُسے مکمل بے لباس ہونا پسند نہیں تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کو اپنا آپ سونپ دیا۔

چھٹیاں ختم ہوئیں تو وہ گاؤں چلی گئی۔ میرا نہ دن کٹتا تھا، نہ رات۔ روز محلے کے پی سی او پر جا کے اس کے گھر کے نمبر پر کال کرنا۔ کبھی بات ہو جاتی، تو کبھی کوئی دوسرا شخص رِسیور اُٹھا لیتا، میں مایوسی سے چونگا رکھ دیتا۔ تب بہت ہمت مجتمع کر کے امی سے کَہ دیا، کہ مجھے شیریں سے شادی کرنی ہے۔ امی نے پیغام بھجوایا، شیریں کے باپ نے شرط رکھ دی، کِہ مکان لڑکی کے نام لگوا دیں۔ امی مان گئیں، لیکن میں بگڑ گیا، کِہ اُس کے باپ نے مکان کو رشتہ دینا ہے، یا مجھے۔

شیریں کی بہن گل بانو سے بات کی، تو اُس نے مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی، اُن کے یہاں خاندان سے باہر رشتہ نہیں دِیا جاتا؛ اگر خاندان سے باہر رشتہ کیا جائے، تَو ایسی شرط رکھنا معمول کی بات ہے۔ انھی دِنوں گل بانو نے شیریں کا پیغام دیا، کِہ میں مکان اُس کے نام لگانے کی شرط مان جاوں۔ پتا نہیں شیریں نے یہ پیغام دِیا تھا، یا اُس کی بہن اپنے پاس سے کَہ رہی تھی۔ پہرے کڑے تھے، شیریں سے بات کرنے کی کوئی سبیل نہ تھی۔ مجھے لگا ایسی شرط رکھنا پیار کے ناتے کی ہتک ہے؛ سو میں نے انکار کر دِیا۔ گل بانو، محمد خان نے کچھ گلیاں دُور کرائے پر مکان لے لیا۔ ایک قصہ تمام ہوا۔

میری شادی کو ایک مہینا ہوا تھا؛ میں نئی نویلی دُلھن کے ساتھ کہیں جانے کے لیے گھر سے نکلا، سامنے سے گل بانو اور شیریں بانو گلی میں آتی دکھائی دیں۔ گل بانو بڑی چاہت سے ملی؛ شادی کی مبارک باد دِی۔ اس دوران شیریں خاموش رہی، میں نے کنکھیوں سے دیکھا، اُس کی نظریں میری بیوی کے چہرے پر گڑی تھیں۔ ان پانچ برسوں میں شیریں مزید بھر چکی تھی۔ اس نے بال شانوں تک کٹوا رکھے تھے، جو مجھے پسند نہیں آئے۔ کچھ رسمی جملوں کے بعد ہم نے اپنی اپنی راہ لی۔ کچھ ہی قدم دُور جا کے میں نے غیر محسوس انداز میں پیچھے مڑ کے دیکھا، گل بانو چند قدم آگے جا رہی تھی، شیریں وہیں ٹھیر کے ہم جاتے ہووں کو تک رہی تھی۔ وہ مجھے اپنی طرف متوجہ پا کے، تیز قدم بہن سے جا ملی۔

”یہ کون تھیں‘‘؟ میری بیوی نے استفسار کیا۔
”یہ؟ یہ گل بانو ہے؛ ہماری کرائے دار رہ کر گئی ہے‘‘۔
”اور ساتھ میں‘‘؟
”پتا نہیں! شاید! ۔ شاید اُس کی بہن ہو گی‘‘۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran