HisChoice#: خواجہ سرا سے شادی کرنے والے شخص کی کہانی


خواجہ سرا

میرے دوست اور محلے والے یہ سمجھتے ہیں کہ میں پیسے کے لیے نشا کے ساتھ ہوں۔ وہ پیسے کماتی ہے اور میں خرچ کرتا ہوں۔

عام لوگوں کا یہ خیال ہے کہ خواجہ سرا بہت دولت مند ہوتے ہیں۔ وہ اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔ ان کے پاس پیسے ہوتے ہیں اور خانگی ذمہ داریاں نہیں ہوتیں۔

یہ لوگوں کی غلط فہمی ہے اور یہ ادھورا سچ ہے۔

نشا کے ساتھ میں 10×10 فٹ کے کمرے میں رہتا ہوں۔ رات کو مدھم روشنی میں مجھے دیواروں کا زعفرانی رنگ پسند ہے۔

ہمارے پاس ایک بستر اور کونے میں درگا (ایک ہندو دیوی) کا مجسمہ ہے۔ نشا ان کی پوجا کرتی ہے۔

نشا کا خیال ہے کہ جب ہم اپنے خاندان والوں ہی کو اپنے رشتے کے بارے میں نہیں سمجھا سکے تو دوسروں کو سمجھانے سے کیا فرق پڑے گا۔

اس لیے وہ باہر کے لوگوں سے گھر کے بارے میں کم ہی بات کرتی ہے۔

نشا مجھے کسی ہیروئن سے کم نہیں لگتیں۔ بڑی بڑی آنکھیں۔ صاف رنگ اور اسے اپنی پیشانی پر بڑی سی بندیا لگانے کا بہت شوق ہے۔

ہم دونوں کی کہانی 12 سال پہلے دوستی سے شروع ہوئی تھی۔

‘بری صحبت’

پہلے نشا کا نام پروین تھا۔ ہم ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ جب میں پہلی مرتبہ پروین سے ملا تو وہ دسویں کلاس میں تھا۔

چھٹے درجے کے بعد میں نے پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ والدین اور بڑے بھائی نے بہت سمجھایا، لیکن ان دنوں ہم خود کو ‘ہیرو’ سمجھتے تھے۔

آج میں اسے ‘بری صحبت’ کہہ سکتا ہوں لیکن جن لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا ان کا مجھ پر بہت اثر پڑا تھا۔

ان کے ساتھ شادیوں میں جا کر میں نے کئی قسم کے لوک گیت سیکھے اور گیت گانے کا کام شروع کر دیا۔

میں 16 سال کی عمر میں خود کفیل ہو چکا تھا جبکہ پروین 12ویں کلاس میں پہنچ چکا تھا۔

’باندھ کر پیٹا’

ہم دونوں نابالغ تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرتے تھے۔ وہ لڑکی تھا یا لڑکا میں نے کبھی یہ فرق محسوس نہیں کیا۔

اس کا خوبصورت ہونا یا لڑکی کی طرح نظر آنا میرے لیے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا تھا بلکہ جب ہم اس سے ملے تھے تو وہ لڑکوں کی طرح ہی پینٹ شرٹ پہنتا تھا۔

کسی لڑکی کے ساتھ تعلقات کیسا ہوتا ہے مجھے پتہ تھا کیونکہ پروین سے پہلے میں ایک لڑکی کے ساتھ دو سال تک رابطے میں تھا۔ ہمارے جسمانی تعلقات بھی تھے، لیکن وہ مجھ سے آٹھ سال بڑی تھی۔

خواجہ سرا

بعد میں اس کی شادی ہو گئی۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں کسی عورت کے ساتھ رشتے میں رہنے کے مقابلے اب زیادہ خوش ہوں۔

نشا (پروین) کو میک اپ کا بہت شوق ہے۔ 12 ویں میں ہی اس نے اپنے کان چِھدوا لیے تھے اور بال بڑھانے شروع کر دیے تھے۔ یہاں تک تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔

لیکن جب پروین کے گھر والوں کو پتہ چلا کہ پروین ‘لڑکا’ نہیں ہے اور وہ میرے ساتھ ہے تو انھوں نے اس کی باندھ کر پٹائی کی۔ اور کئی بار اس کے ساتھ ایسا ہوا۔

انھوں نے گھر سے پروین کو تو نہیں نکالا لیکن اسے چھت والے ایک کمرے میں رہنے پر مجبور کیا۔ یہاں تک کہ اس کا پانی بجلی بھی بند کر دی۔

خواجہ سراؤں کا گروپ

اس کی تعلیم کے لیے میں نے ایک بیٹری سے روشنی کا انتظام کیا۔

اسے جو تکالیف دی جا رہی تھیں ان کا ہم نے ساتھ مل کر مقابلہ کیا اور شاید اسی وجہ سے ہمارا رشتہ مزید مضبوط ہوا۔

میں خوش ہوں کہ پروین نے مجھ سے زیادہ تعلیم حاصل کی۔ میری والدہ کا کہنا تھا کہ تعلیم سے دنیا بدلتی ہے لیکن پروین کے لیے دنیا نہیں بدلی۔

بہت سے لوگوں نے ‘ہم خواجہ سراؤں کو ملازمت نہیں دیتے’ کہہ کر پروین کو نوکری دینے سے انکار کر دیا۔

اسی لیے پروین نے خواجہ سراؤں کے گروپ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے پاس کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیے

HisChoice#:’تیری مجبوری کو تیرا شوق بنا دوں گی’

’دل کے کسی گوشے میں مہندی لگانے کا شوق زندہ تھا‘

مجھے پتہ تھا کہ خواجہ سراؤں کے گروہ میں شامل ہونے کا مطلب شادیوں اور خوشی کے مواقع پر لوگوں کے لیے ناچنا گانا اور پیسے کمانا ہے۔

مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میں نے نشا (پروین) کو پہلی بار ایک گلی میں خواجہ سراؤں کے مخصوص انداز میں تالیاں بجاتے دیکھا تھا۔ اس وقت مجھے بہت دکھ ہوا تھا۔

لوگوں نے اور اس کے خاندان والوں نے اگر اسے اسی طرح قبول کیا ہوتا اور اس کی مدد کی ہوتی تو آج وہ کچھ اور کر رہا ہوتا۔ اسے مجبوراً اس پیشے میں آنا پڑا۔

اب ہم نے ساؤنڈ سسٹم لگانے کا کام شروع کیا ہے اور دونوں مل کر کام کرتے ہیں۔ گزارہ ہو جاتا ہے۔

خواجہ سراؤں کی شادی

میں ابتدا میں نشا سے ناراض تھا لیکن اس کے کام کے لیے کبھی شرمندگی محسوس نہیں کی۔ وہ خوش تھی اور ہم بھی خوش تھے۔

خواجہ سرا گروہ کے سربراہ نے ‘پروین’ کا نام بدل کر ‘نشا’ رکھا تھا۔

میں نے اس کی مدد کی لیکن اس کے بڑے بھائی اور اس کے والد نے اسے بار بار مارا پیٹا۔

نشا کے گھر کا ماحول بہت خراب ہو گیا۔ جب اس کی ماں کا انتقال ہوا تو اہل خانہ نے اسے سر منڈوانے کے لیے کہا، لیکن نشا نے انکار کر دیا۔

نشا کی والدہ کی وفات کے چند دنوں بعد ہم نے شادی کر لی۔ ہماری شادی کو اب تقریباً دس سال ہو چکے ہیں۔

کسی نے کہا کہ اگر نشا جنس تبدیلی کا آپریشن کرا لے تو شادی رجسٹر ہو سکتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اور اسی لیے ہماری شادی کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔

خواجہ سرا

اس کا لڑکیوں کی طرح پیش آنا

ایسا رشتہ قائم کرنے والے ہم تنہا نہیں ہیں۔ نشا کے گروپ میں تقریباً 25 خواتین ہیں جنھوں نے مردوں سے شادی کی ہے۔

ان میں سے دس مرد ایسے بھی ہیں جن کی کسی دوسری عورت سے بھی شادی ہوئی ہے۔ ان بچے بھی ہیں اور وہ ہفتے میں دو دن کے لیے اپنے خواجہ سرا ساتھی کے ساتھ رہتے ہیں۔

نشا اور میرے رشتے میں پہلے سے یہ طے تھا کہ شوہر میں ہوں اور نشا میری بیوی ہے۔ وہ میرے لیے کروا چوتھ کا برت (روزہ) بھی رکھ لیتی ہے۔ جب وہ تیار ہو جاتی ہے تو وہ مجھ سے پوچھتی ہے کہ وہ کیسی لگ رہی ہے۔

ہر چھ ماہ بعد خواجہ سرا ایک تقریب منعقد کرتے ہیں۔ اس میں تمام خواجہ سرا اپنے شوہروں کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔

ہم ان تقاریب کو بہت پسند کرتے ہیں۔ ان پارٹیوں میں لوگ خوب رقص کرتے ہیں اور اچھے کھانے ہوتے ہیں۔

مجھے یہ تقریب اس لیے بھی پسند ہے کہ ان میں نشا خواجہ سرا کے بجائے ایک ‘عورت’ کی طرح پیش آتی ہے۔

کئی بار خواجہ سرا لڑکوں کو بھی چھیڑ دیتے ہیں لیکن نشا جب ان تقاریب میں یا سر راہ میرے ساتھ ہوتی ہے تو یہ خیال رکھتی ہے کہ وہ تالیاں نہ بجائے، گالیاں نہ دے اور خواجہ سراؤں کے انداز میں بات نہ کرے۔

شاید وہ مجھ سے شرماتی ہے اور مجھے یہ پسند ہے۔

الجھے رشتے

نشا میں لڑکوں جیسی قوت ہے۔ جب ہم دونوں مذاقاً گھر پر لڑ پڑتے ہیں تو اسے ہرانا آسان نہیں ہوتا۔ بلکہ کئی مرتبہ وہی مجھے چت کر دیتی ہے۔

میرے بہت سے دوست تھے لیکن اب بہت سے پیچھے چھوٹ گئے کیونکہ وہ مجھ سے خواجہ سراؤں سے دوستی کرانے کے لیے کہتے تھے۔

ان کے اعصاب پر صرف سیکس سوار ہے۔ وہ ان کے لیے حساس نہیں ہیں اور نہ ہماری بات سمجھتے ہیں۔

نشا کے گروہ کی سربراہ داماد کی طرح میری خاطر مدارات کرتی ہیں۔

شادی سے قبل نشا نے گھر چھوڑ دیا تھا اور اس دوران اس نے کبھی اپنے خاندان والوں سے بات نہیں کی۔

وہ اپنے بھائی اور والد کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔ اس کا خیال ہے کہ وہ خواجہ سرا ہے اس لیے والد کی جائیداد میں اس کا کوئی حق نہیں ہے۔

میرے گھر کے بھی زیادہ تر لوگ مجھ سے کتراتے ہیں۔ ہمارے زیادہ تر رشتہ داروں نے کہا کہ وہ مجھے اسی وقت ملیں گے جب میں نشا کو چھوڑ دوں۔ اس لیے میں نے رشتہ داروں کو ہی چھوڑ دیا۔

لڑکیوں کے رشتے

تاہم گذشتہ دو سالوں میں خاندان کے اراکین نے یہ دباؤ ڈالا ہے کہ مجھے کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح میری سوچ بدل جائے گی۔

شادی کے لیے اب تک وہ تین لڑکیوں کا رشتہ لا چکے ہیں۔ لیکن میری شرط ہے کہ میں شادی کے بعد بھی نشا کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ یہ باتیں میں ان کو ٹالنے کے لیے کہہ دیتا ہوں۔

جب میری شادی کی بات ہوتی ہے تو نشا خوفزدہ ہو جاتی ہے کہ کہیں میں اسے چھوڑ نہ دوں۔

اسی خوف کے تحت وہ مجھے فیس بک اور وٹس ایپ کا استعمال نہیں کرنے دیتی ہے کہ میں کسی دوسری لڑکی کے چکر میں نہ پڑ جاؤں۔ میں اس کی اس بات پر بہت ہنستا ہوں۔

دو آخری خواہشات

میری ماں اپنے آخری دنوں میں کہا کرتی تھی: ‘بیٹا ان چکروں میں مت پڑ۔ جوانی کے ساتھ سب چلا جائے گا۔ گھر عورت سے ہی بستا ہے۔ تو سب سے چھوٹا ہے۔ میرے مرنے کے بعد تجھے کوئی نہیں پوچھے گا۔’

اب اس کی بات درست ثابت ہونے لگی ہے گرچہ اس وقت میں ان سے کہا تھا: ‘ماں یہ دل کی لگی ہے، نہیں جاتی۔۔۔’

ماں کی موت کے بعد کسی نے گھر میں مجھ سے ٹھیک سے بات نہیں کی۔ البتہ یہ کہہ کر ڈراتے ضرور ہیں کہ ‘بڑھاپے میں زندگی مشکل ہو جائے گی۔’

مجھے نشا سے محبت ہے، سچی محبت۔ میں اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کر دوں گا۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ لڑکا ہے یا لڑکی یا کہ خواجہ سرا۔ میرا دل اس سے ملتا ہے اور یہی کافی ہے۔

میری صرف دو خواہشات ہیں۔ ایک، اس کمرے سے بڑا گھر خریدنا جہاں ہم بہتر طور پر رہ سکیں۔

اور دوسرا، ایک بچہ گود لے کر اس کی شادی کرنا۔ میں اپنی شادی میں کچھ بھی خرچ نہیں کر سکا، برات بھی نہیں دیکھی اور دعوت بھی نہیں کر پایا۔

بہر حال نشا کسی بچے کو گود لینے سے ڈرتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ کسی بچے کو اپنی زندگی میں لانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

(یہ کہانی ایک مرد کی زندگی پر مبنی ہے جن سے بی بی سی کے شرشانت چہل نے بات کی۔ ان کی شناخت پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ اس سیریز کی پروڈیوسر سوشیلا سنگھ ہیں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp