زینب قتل کیس کے مجرم عمران علی کو لاہور میں پھانسی دے دی گئی


پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں جنسی تشدد کا نشانہ بننے کے بعد قتل کی جانے والی آٹھ سالہ زینب کے مقدمے کے مجرم عمران علی کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی دے دی گئی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ مجرم عمران علی کو بدھ کی صبح ساڑھے پانچ بجے تختہ دار پر لٹکایا گیا اور پھانسی دیے جانے کے وقت زینب کے والد امین انصاری بھی موجود تھے۔

مجرم عمران علی کو مختصر عدالتی کارروائی کے بعد چار بار سزائے موت، ایک بار عمر قید اور سات برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

زینب قتل: پھانسی 17 اکتوبر کو، گرفتاری سے انجام تک کی کہانی

قصور واقعے کا ملزم عمران علی کون ہے؟

جیکٹ کے دو بٹن ملزم عمران علی کی گرفتاری میں معاون

پاکستان میں زینب سے جنسی زیادتی کے واقعے نے سماج کو جھنجھوڑ کر رکھا دیا تھا جس کی وجہ سے مجرم عمران علی کی پھانسی میں عوام کی بڑی دلچسپیت تھی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے۔

#ZainabMurderCase اور “Imran Ali” کے نام سے ٹرینڈ کر رہا ہے جس پر زینب کی تصاویر کے ساتھ عمران علی کی پھانسی کی پوسٹ شیئر کی جا رہی ہیں وہیں پاکستان میں انصاف کے نظام پر بھی بحث ہو رہی ہے تو یہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ عمران جیسے کئی کردار اب بھی ہمارے معاشرے میں کھلے عام گھوم رہے ہیں۔

https://twitter.com/RafiUllahMwt/status/1052365673081556992

رفعی اللہ مروت نے ٹویٹ کی کہ’بلآخر انصاف کا نیا دن‘ کے ساتھ ٹویٹ کی تو اس کے نیچے بلال حیدر نے سوال اٹھایا کہ اس کے برعکس ہم اس بات کو رد نہیں کر سکتے کہ یہ شخص ہمارے معاشرے سے تھا اور اس جیسے کئی موجود ہیں۔

انھوں نے اس کے ساتھ حکومت کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا جس میں مجرم کو سرِ عام پھانسی دینے کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

اسی کے بارے میں شہریار نامی صارف نے لکھا کہ کیوں مجرم کو سرعام پھانسی دینے کے بارے میں زینب کے والد کی درخواست کو مسترد کیا گیا۔’مجرم کو جنوری میں پکڑا گیا اور اس کے نو ماہ بعد پھانسی دی گئی۔۔۔۔ ہمارے نظام انصاف کو سلام۔۔۔‘

فراز خان یوسفزئی نے ٹویٹ کی’ میں سمجھ سکتا ہوں کہ کیوں زینب کے والد سرعام پھانسی چاہتے تھے لیکن اس کے وہ اثرات نہیں ہونے تھے جن کی وہ توقع کر رہے تھے۔ ہمیں اپنے سماج کو مکمل طور بدلنے کی ضرورت ہے۔ تشدد جواب نہیں بلکہ انصاف، اچھی پولیس اور منصفانہ نظام ہے۔ چلیں اب اس پر بات کریں۔‘

زینب کے لیے انصاف

اسی طرح سے کئی صارف مجرم کی پھانسی کی خیرمقدم کر رہے ہیں اور ساتھ میں’ زینب سے معافی‘ کا اظہار بھی کر رہے ہیں کیونکہ وہ انھیں بچا نہیں سکے۔

‏خیال رہے کہ کستان میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کی خبریں اکثر اوقات سامنے آتی رہتی ہیں جس میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ‘ساحل’ کے مطابق رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے اغوا، ان پر تشدد اور ریپ سمیت مختلف جرائم کے 2300 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ 57 بچوں کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا۔

تاہم ملک میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کے مسئلے کو ‘زیادہ اہمیت’ نہیں دی گئی لیکن رواں برس جنوری میں آٹھ سالہ زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں عوامی غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور شاید پہلی بار اس مسئلے پر کھل کر بات کی گئی اور یہ ایسا ہی تھا جب ہمسایہ ملک انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں بس ریپ کے بعد شدید عوامی ردعمل سامنے آیا اور حکومت کو ریپ کے واقعات کو روکنے کے سخت قانون سازی کرنا پڑی۔

لیکن اگر پاکستان کی بات کی جائے تو زینب کیس کے بعد حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا لیکن تاحال یہ وعدے وفا نہیں ہو سکے اور بچوں سے جنسی زیادتی کے خلاف ٹھوس اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments