میں آریان کی بیوی تھی اور فیروز کی بھی


اس نے مجھے اپنے ایک ہاتھ سے سہارا دے کراُٹھایا۔ میرے ہاتھ سے گاڑی کی چابی لے کر گاڑی کا دروازہ کھولا، بچّی کو پچھلی سیٹ پر بٹھایا، میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی، کچھ نہیں کہہ سکی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روتی ہوئی گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے جلدی جلدی کاغذ کے ایک ٹکڑے پر اپنا نمبر لکھ کر دیا اور مجھ سے ارجمند کا نمبر پوچھ کر ایک کاغذ پر لکھ لیا پھر وہ آہستہ سے اس شام کے دھندلے اندھیروں میں کھوگیا تھا۔

وہ شام بڑی بھیانک شام تھی۔ میں آریان کی بیوی تھی اور فیروز کی بھی بیوی۔ آریان میرا محبوب تھا۔ میں فیروز کے بچّے کی ماں تھی۔ اسے میں نے پوجا تھا یہ یقین کرلینے کے باوجود کے وہ مرگیا ہے۔ میں اسے اپنے دل کے کسی بھی خانے سے تھوڑی دیر کے لیے بھی جدا نہیں کرسکی تھی۔ وہ میرے وجود میں تحلیل ہوگیا تھا اور فیروز میرے چاروں طرف موجود تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدایا، کیا کردیا تو نے۔ کیسی یہ دنیا بنائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیسے یہ رشتے باندھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں انہیں جوڑا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں انہیں توڑا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا مرضی ہے تیری، کیا چاہتا ہے تو مالک۔ اتنا ظالم بھی ہوسکتا ہے تو، تیرے نام تو بڑے مہربان ہیں، یہ تیرے کام ہیں، یہ تیرے کام ہیں۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں چیخوں، چیخ کر روؤں اتنا روؤں کہ آسمان زمین پر گرجائے۔ مگر میں محض سوچتی رہی، اُلجھتی رہی اور ٹوٹتی رہی، روتی رہی اور من ہی من میں چیختی رہی۔

شام کوفیروز آئے تو میں ان سے کچھ چھپا نہیں سکی۔ بڑا ظلم کیا ان پر میں نے۔ میں کچھ اور کر بھی نہیں سکتی تھی اور کچھ اختیار میں بھی نہیں تھا میرے۔ میں نہیں رہ سکتی تھی ان کے ساتھ۔ جب تک وہ مردہ تھا میں ان کی تھی، لیکن اگر وہ زندہ ہے تو میں کسی اور کی ہو ہی نہیں سکتی ہوں۔ میں نے فیروز کو بتادیا۔ اپنی مجبوری اپنا دل کھول کر سامنے رکھ دیا میں نے۔ میں دوہری زندگی کیسے گزارتی۔ گزار ہی نہیں سکتی تھی میں۔ وہ میرے وجود کا حصّہ تھا۔

اس دن ہی دوسری موت دیکھی میں نے۔ فیروز میری سنتے رہے، نہ چیخے نہ اُلجھے، کبھی ایک جگہ کبھی دوسری جگہ۔ آنسوؤں سے چہرہ تر، بار بار بچّی کو چومتے رہے، مجھے دیکھتے رہے سوچتے رہے، میرے پاس بیٹھ گئے پھر بولے مجھے منظور ہے۔ مگر اس بچّی کا کیا ہوگا فرشتے، اس کا باپ تو میں ہوں۔ تم ماں ہو مگر کیسے چلے گا۔ انہوں نے التجا کی تھی مجھے بچّی کو تو لے جانے دینا۔ اسے رکھوں گا اپنے پاس۔ کبھی نہیں آؤں گا تمہاری زندگی میں، تمہارے درمیان اتنا تو حق دوگی مجھے۔ نہ جانے وہ رات کیسے گزری۔

دوسرے دن صبح ہی ارجمند اور ماں گھر آئے۔ آریان کو طالبان کمیونسٹ ہونے کے جرم میں پکڑ کر لے گئے تھے۔ آریان نے بہت سمجھایا کہ وہ کمیونسٹ نہیں ہے مگر ماسکو کی ڈگری، انگریزی کی پروفیسری یہ سب کچھ اس کے لیے گواہ بن گئی تھی۔ ایک دفعہ جیل سے بھاگنے کی کوشش میں اس کے بازوؤں پر گولی لگی تھی جس کے بعد ایک بازو کاٹ دیا گیا تھا۔ طالبان کی حکومت کے ختم ہونے کے ساتھ ہی وہ کابل پہنچا جہاں کسی کو ہمارے بارے میں پتہ نہیں تھا۔ اس کا خاندان تو پہلے ہی بم کی نذر ہوگیا تھا۔ وہاں سے وہ پشاور پہنچا جہاں کسی نے بتایا تھا کہ ارجمند کو امریکن امیگریشن کے کاغذات بھرتے ہوئے اس نے دیکھا تھا۔ پھر وہ بھی اسلام آباد آکر امریکہ میں پناہ کی درخواست قبول ہونے کے بعدامریکہ آگیا تھا۔ ماں نے بتایا کہ وہ چاہتا ہے کہ زندگی تمہارے ساتھ گزارے بشرطیکہ تمہیں بھی قبول ہو۔ اسے سب کچھ قبول ہوگا تم، تمہاری بچّی، اگر یہ ممکن نہیں تو پھر وہ واپس چلا جائے گا، واپس افغانستان، کابل یونیورسٹی۔

پھر سب کچھ آسانی سے ہوگیا۔ فیروز بچّی کو لے کر میری زندگی سے نکل گئے۔ میں ماں کے گھر واپس آگئی۔ خوش بھی رنجیدہ بھی۔ امیدوں کے ساتھ مایوسیوں میں گھری ہوئی۔ میں اس کے بازوؤں میں اور وہ میرے گلے لگ کر رودیا تھا بے قرار ہوہو کر۔

تین دنوں کے بعد یکایک فیروز گھر آئے، بچّی کو لے کر جو ہمک کر مجھ سے چپک گئی تھی۔ وہ خاموشی سے مجھے آریان، ارجمند اور ماں کو دیکھتے رہے۔ پھر آریان سے مخاطب ہوکر بولے ”میں آپ لوگوں کی زندگیوں سے نکل جانا چاہتا ہوں۔ بہت مشکل ہے میرے لیے، ایک لمحے کو بھی دل نہیں کرتا ہے کہ اس بچّی کو چھوڑوں لیکن فرشتے سے بھی بے انتہا پیار ہے۔ مجھے اور اس کی بیٹی سے بھی محبت ہے۔ میں بچّی کو چھوڑدوں گا آپ کے پاس ہمیشہ کے لیے۔ کبھی نہیں آؤں گا بس ایک دفعہ کہہ دو تم اسے اپنی ہی بچّی سمجھوگے باپ بن جاؤ گے اس کے۔ ‘‘ اس نے بڑے درد سے کہا تھا۔

آریان اُٹھے، اس کے قریب آئے، اسے گلے سے لگایا، اس کے ماتھے کو چوما، اس کے ہاتھوں کو تھاما، ”یہ تمہاری بیٹی ہے مگر میری فرشتے اس کی ماں ہے، اپنی ذات سے زیادہ چاہوں گا، اسے اپنی ذات سے زیادہ۔ تم سے بھی مجھے عقیدت ہے تم نے فرش کو دوبارہ زندگی دی تھی۔ وہ تمہاری بھی ہے اور یہ دونوں میرے لیے میری ذات سے زیادہ ہوں گے۔ ‘‘
انہوں نے بڑے اعتماد سے فیروز کو یقین دلایا تھا۔

ہم لوگ کابل واپس جارہے ہیں، وہیں رہیں گے، میں، آریان، میری بچّی، میری ماں۔ آریان پھر سے کابل یونیورسٹی میں پڑھائیں گے میں بھی پھر سے کابل پولی ٹیکنک میں وہی سب کچھ کروں گی جسے کر کر ہمیشہ مجھے خوشی ہوئی ہے یعنی فزکس پڑھانے کا کام۔ لیکن ابھی تک ایک سوال بار بار آتا ہے دماغ میں، آئن اسٹائن کا سوال تخلیق کار کی سوچ کے بارے میں اس کے ذہن کے بارے میں، تخلیق کار کے سمجھ کے بارے میں۔
I want to know God‘s thought
مجھے بھی تخلیق کار کی سوچ کا پتہ کرنا ہے۔ تفصیلات سے تو میں آگاہ ہوں اور آپ بھی آگاہ ہوچکے ہیں مگر اس کا ذہن کیا ہے، اس کی سمجھ کیا ہے، کا ش میں سمجھ سکوں۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4