پرانے پاکستان کا نیا بیانیہ


اگر یہ کہا جائے کہ 2016 نے پاکستان کی برقی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا تو بے جا نہ ہو گا۔ دنیا بھر میں بلا گنگ کا مادری زبان میں چلن عام ہوئے ایک عرصہ گزرا، تو پاکستان میں بھی چند ہوش مندوں کو قومی زبان کی آب یاری کا مقدس فریضہ یاد آیا۔ بہر کیف! دیر آ ید درست آ ید۔

اب اگر ان آن لائن جریدوں کا دیگر ممالک سے مقامی زبانوں میں جاری ہونے والے مساوی پلیٹ فارموں کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے، تو عوامی طبقے کی سیاسی رائے میں یک سانیت نظر آتی ہے۔ مثلاً سبھی حکومتِ وقت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ دوم؛ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی چند زاویوں سے پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں کم زور ہے۔ سوم؛ طبقاتی فرق کو آئے دن فروغ دیا جا رہا ہے وغیرہ۔

یہاں اس امر کی نشان دہی بھی ضروری ہے، کہ زیادہ تر ممالک جہاں لوگوں کو آزادی اظہار رائے میسر ہے، وہیں ان آن لائن جریدوں کی اشاعت کی جاتی ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ کہ وہاں سیاست کے علاوہ بھی مختلف بنیادی موضوعات، جن میں صحت، خوراک، تعلیم، کاروبار، صنعت اور ٹیکنالوجی وغیرہ شامل ہیں، پر لکھا جا رہا ہے۔ اور ان تمام موضوعات کے قابل قدر تعداد میں سنجیدہ قارئین بھی موجود ہیں۔

اب اگر پاکستان میں اہل دانش ان موضوعات پر قلم اٹھانے سے گریزاں ہیں، تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں، کہ ہمارا تعلق کسی مفلوج معاشرے سے ہے، البتہ ہم ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ بہت سے تیسری دنیا کے ممالک سے اس لیے بھی پیچھے ہیں، کہ انھوں نے نظریہ و بیانیہ جیسی اصولی بحثوں کا خاطر خواہ جواب تلاش کر لیا ہے۔

اگر آج امریکا سپر پاور ہونے کا دعوے دار ہے (جس میں وہ حق بجانب بھی ہے)، تو اس کی بظاہر ایک یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے، کہ وہ اس وقت دنیا کے کم و بیش 60٪ وسائل پر بالواسطہ یا بلاواسطہ قابض ہے۔ لیکن معاملے کا حق شناسی سے غیر عصبی جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے، کہ آج سے کوئی دو ڈھائی صدی قبل جب ریاست ہائے متحدہ امریکا کے ’فاؤنڈنگ فادرز‘ نے کمرے میں بند ہو کر ’دی فیڈرلسٹ پیپرز‘ نامی دستاویزات مرتب کیں تو وہ محض چند کاغذ کے پلندے لے کر برآمد نہ ہوئے، بلکہ ان کے ہاتھوں میں وہ مشعل تھی جس نے ان کی قوم کو نشاۃ ثانیہ کی راہ سے رُو شناس کرایا۔

کسی بھی معاشرے کو ترقی کی راہ پر گام زن ہونے کے لیے ضروری ہے، کہ اس معاشرے کے افراد کا نظریہ حیات اور ان پر نافذ نظام ہمہ جہت ہوں۔ اور ہمارے عوام کے نفوس میں جو چیز شامل ہے، وہ ان پر نافذ نظام سے مطلقاً متصادم ہے۔ گویا ہم پر نشاۃ ثانیہ کے حصول کے لیے لازم ٹھہرا، کہ آیا ہم لوگوں کی سوچ کو نافذ نظام کے تابع کر لیں یا پھر عوامی جذبات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے خود پر نافذ نظام کو بدل ڈالیں۔

اگر پاکستان میں صحت و تعلیم جیسے موضوعات پر بات نہیں ہو رہی تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ آج 70 سال گزرنے کے بعد بھی فکری بے راہ روی کا شکار ہے۔ البتہ نظریہ اور بیانیہ کا یہ سوال، اس دفعہ انتہائی سنجیدگی سے اٹھایا گیا ہے، جس کے نتیجے میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مفکرین اپنے تجربے اور علم کی روشنی میں عامتہ الناس کی رہ نمائی بھی فرما رہے ہیں۔ چاہے ان مباحثوں اور مکالموں کا حل کچھ بھی نکلے، خوش آیند بات یہ ہے، کے اب ہم نے من حیث القوم صحیح سمت میں سوچنا شروع کر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).