کیا جمال خشوگی کا معاملہ مڈل ایسٹ میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے؟


کیسی اقدار، کیسا عدل و انصاف، کہاں کی شخصی آزادی اور کہاں کی معیاری جمہوری روایات یہ سب فریب نظر اور دل کو خوش رکھنے یا بہلاوے کے بہانے ہیں۔ بڑے بڑے جمہوریت اور آزادی اور انسانی حقوق کے علم بردار ممالک ان ہی خوب صورت ناموں کے سہاروں سے اپنی منافقت اور دوغلے پن کا یہ کھیل، کھیل رہے ہیں اور جب حقیقت کھل کے آنکھوں کے سامنے بے نقاب ہوکر ناچتی ہے تو بڑے بڑے دعوے ریت کا ڈھیر ثابت ہوتے ہیں اور سچائی بہر حال آنکھوں اور کانوں کو دکھائی اور سنائی دینے لگتی ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات میں یہ سلسلہ بھی اب بہت تیزی کے ساتھ رونما ہونے لگا ہے۔

ہزاردفعہ دہرائی گئی بات کہ ملکوں اور قوموں کے درمیان صرف اپنے اپنے مفادات کا زیادہ سے زیادہ حصول ہی دوستی اورتعلقات کی بنیاد ہوا کرتا ہے اس حوالے سے مڈل ایسٹ کے موجودہ حالات پر نظر ڈالی جائے تو اس سے مڈل ایسٹ میں آنے والے وقت کا نقشہ بالکل ہی مختلف نظر آرہا ہے۔

سعودی صحافی جمال خشوگی کی استنبول کے سعودی قونصلیٹ میں، گمشدگی اور امکانی قتل پر ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ میں شدید تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ انسانی اور جمہوری حقوق کی چیمپئن حکومتیں اور ریاستیں امریکہ اور برطانیہ بھی اس معاملےپر بظاہر بہت بے چین اور بے قرار نظر آرہی ہیں۔ معاملے کی شفاف تحقیق کے لیے زور لگا کے سعودی تعاون کا مطالبہ کیا جارہا ہے بصورتِ دیگر سزاؤں کی دھمکی بھی دی جارہی ہے۔

سعودی عرب کے العربیہ نیوز کی ایک رپور ٹ کے مطابق صحافی جمال خشوگی کی گمشدگی اور امکانی قتل کے معاملے پر سزا اور ممکنہ پابندیوں کے جواب میں سعودی اور جہاں دوسرے اقدامات کی سوچ بچار کررہے ہیں جن میں اہم ترین ایران کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا اور ایران کے ساتھ مل کر اوپیک ممالک کی مدد سے بین الاقوامی تیل کی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کو اوپر لے جانا شامل ہے وہیں وہ اس امکان پر بھی غور کررہے ہیں کہ سعودی عرب کے شمال مغربی صوبے تبوک میں روس کو فوجی اڈہ فراہم کردیا جائے جو کہ شام، عراق، اردن، اسرائیل اور لبنان سے بہت قریب ہونے کی وجہ سے اسٹرٹیجک حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر سعودی عرب، روس کو یہاں فوجی اڈہ بنانے کی اجازت دے دیتا ہے تو واقعی یہ وہ اقدام ہو گا جو مڈل ایسٹ میں برسوں سے جاری طاقت اور مفادات کے حصول کی جنگ کا نقشہ بالکل ہی اُلٹ کے رکھ دے گا۔

ستر سال پہلے اسرائیل کے ناجائز قیام سے لے کے آج تک مڈل ایسٹ کے اس خطے میں جتنی ہولناک جنگیں ہوئی ہیں اور ان جنگوں کے نتیجہ میں جتنا انسانی خون یہاں بہا ہے اس کی مثال دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں ملتی ہے۔ فلسطین کے معاملے پر عرب اسرائیل جنگیں، لبنان کی خانہ جنگی، عراق ایران جنگ، پھر امریکہ عراق جنگ، اور اب شام کی خانہ جنگی کےساتھ یمن کی جنگ بھی شامل ہے۔

ابھئی کچھ ہی عرصہ پہلے شاہ سلمان روس کے تاریخی دورے پر گئے تھے اسلحہ کی خریداری پر بھی کچھ پیش رفت ہوئی تھی اور پھر اس کے فوراً بعد چین سے بھی تجارتی روابط کو بڑھایا گیا تھا۔ شام اور یمن کی خراب صورتِ حال سے نکلنے کے لیے اور ایران کو کاؤنٹر کرنے کرنے کے لیے بھی شاید یہ سفارتی کھڑکیاں کھولی گئیں تھیں۔ ایران اس ساری صورتِ حال میں بہر حال سعودی عرب کے مقابلے میں روس اور چین سے زیادہ قریب ہے۔ امریکی صدرٹرمپ اور اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی بدحواسی اور تشویش عالمی ذرائع ابلاغ اور اقوامِ متحدہ میں جو کچھ ہی دنوں پہلے نظر آرہی تھیں وہ بھی بے سبب تو نہیں تھیں کچھ تو تھا جس کی پردہ داری نہیں ہو پارہی ہے۔

کبھی سعودی عرب کو کہا جارہا تھا کہ امریکی مدد کے بغیر سعودی شاہی خاندانی حکومت دو ہفتے بھی قائم نہیں رہ سکتی اور تیل کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے تیل کی پیداوار بڑھانے پر بھی زور دیا جارہا تھا اور کہیں نیتن یاہو ان مقامات کی جعلی اور جھوٹی تصویریں اقوامِ متحدہ میں دکھا رہے تھے کہ جہاں ایران اپنی خفیہ ایٹمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایرانی تیل کے خریدار ممالک کو نومبر کے مہینے سے ایرانی تیل کی خریداری پر پابندی کی تلوار بھی ایران کے سر پر لٹکا دی گئی ہے۔ اگرچہ یہ معاملہ اب تک کی اطلاعات کی روشنی زیادہ کارگر نظر نہیں آرہا کیوں کہ روس، چین، بھارت، برطانیہ، فرانس اور جرمنی وغیرہ امریکی پابندیوں سے بچاؤ کا انتظام کر کے ایران سے تیل کی خریداری جاری رکھنے پر کوشاں نظر آتے ہیں۔

اس ساری بھاگ دوڑ میں اگر سعودی عرب نے کہیں ایران سے بھی اپنے تعلقات میں نظرِ ثانی کرتے ہوئے امکانی حد تک بہتری پیدا کرلی جس کا روس کی مدد سے امکان نظر آرہا ہے اور یہ کام روس کے بہترین مفاد میں ہے اور وہ یہ کام کرسکتا ہے جبکہ امریکہ یہ کام کبھی نہیں کرے گا اس کی وجہ بڑی وجہ اسرائیل ہے جو اس کی مجبوری بھی ہے اور ایرانی بھی اپنی پابندیوں کی وجہ سے سعودی عرب سے تعلقات کی بہتری کے خواہش مند نظر آتے ہیں اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر واقعی مڈل ایسٹ کی قسمت اور تاریخ دونوں ہی بدل سکتی ہیں۔

امریکہ اور اسرائیل مڈل ایسٹ میں اپنے بچاؤ کے لیے جس طرح ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اس میں صرف سعودی عرب ہی ان کا آخری بڑا اور اہم سہارا رہ گیا ہے، متحدہ عرب امارات، کویت اور بحرین سعودی عرب کے ساتھ ہی جائیں گے ان کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ باقی سارا میدان تو روس اور ایران، عراق، شام، لبنان، قطر اور یمن کے ساتھ تقریباً لپیٹ ہی چکے ہیں۔ آسمان تو مستقل گردش میں ہے ہی ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).