کہانی سماجی ’دیو‘ اور باغی شہزادیوں کی ۔۔۔


یہ سب یہاں نہیں چلے گا، جب اپنے گھر جاؤ تو سارے شوق پورے کرلینا، دوسری ڈگری؟ کیا دماغ ٹھکانے پر ہے لوگ پھر باتیں کریں گے کہ اچھی خاصی عمر ہے ان کی بیٹی کی، کوئی اچھا رشتہ بھی نہیں آئے گا۔ ایم فل، پی ایچ ڈی کرنی ہے تو شادی کے بعد شوہر کی اجازت سے کرلینا۔ نوکری؟ کوئی ضرورت نہیں تم کیا چاہتی ہو تمہارا باپ اور ماں اس عمر میں لوگوں سے طعنے سنیں کہ بیٹی کو کمانے پر لگا دیا۔

ایسے بہت سے ملتے جلتے جملے ہر گھر میں اس لڑکی کو سننے کو ملتے ہیں جو کچھ کرنا چاہتی ہے۔ لیکن سماج کے بنائے ہوئے ایسے اصول جن کا نہ کوئی حاصل نہ وصول، اسے کوئی بھی قدم اٹھانے سے روک دیتا ہے۔ یہاں تک کہ چند گھرانوں میں آج بھی گہرے رنگ کی لپ اسٹک کا استعمال اس لیے منع ہے کہ یہ سب شادی کے بعد لڑکیوں کو زیب دیتا ہے۔ سیاہ رنگ نہ پہنو، باہر جاؤ تو بھائی کو ساتھ لے کر جاو، جہاں پہنچو تو فون کر کے مطلع کرو، یہاں تک کے ایسی یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لو جہاں مخلوط تعلیمی نظام ہے۔ ان سب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ والدین کو اپنی بیٹی سے کہیں زیادہ اس بات کی فکر رہتی ہے کہ وہ لوگوں کو کیا جواب دیں گے؟

کرن سدوھوانی کے والد بھی اپنی بیٹی کی کامیابی پر خوش ہونا اس وقت بھول گئے جب انھوں نے یہ سنا کہ بیٹی کو جو نوکری ملی ہے ا س میں اسے سائیٹ پر ہی رہنا پڑے گا او ر وہ ہفتہ وار تعطیل کے بعد ہی گھر آیا کرے گی۔ بیٹی سے فکرمندی میں پہلی بات ہی یہی کی گئی کہ لوگ کیا کہیں گے؟ جوان بیٹی کو پہلے اتنا پڑھا لکھا دیا اور ا ب نوکری کے لئے بیابان ریگستان میں چھوڑ دیا۔ کرن کا تعلق تھر پارکر کے علاقے مٹھی سے ہے جہاں وہ پیدا ہوئی، بچپن گزارا، کھیلی کودی، پڑھنے میں لائق تھی تو اپنے ہی علاقے کے اسکول کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے والد سے ضد کی کہ وہ اب اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے۔ لیکن مٹھی میں کوئی ایسی جامعہ نہیں تھی جو اس کے خوابوں کو تعبیر دیتی۔ یہاں پھر پہلی رکاوٹ آئی کہ لوگ کیا کہیں گے؟ لیکن بیٹی کی لگن اور شو ق کو دیکھتے ہوئے باپ نے سماج سے بغاوت کرتے ہوئے اپنی بیٹی کو مہران یونیورسٹی جام شورو میں داخلہ دلایا جہاں سے وہ کمپیوٹر انجینئیر بن کر نکلی۔ یوں کرن تھر پارکر کی پہلی پروفیشنل آئی ٹی انجینئیر بن کر اپنے علاقے کو لوٹی۔

والدین کا سر فخر سے بلند ہوگیا کہ اگلہ مرحلہ اس ڈگری کو استعمال میں لانے کا بنا جب کرن نے کراچی میں نوکری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا کیونکہ مٹھی جیسے علاقے میں کوئی مواقع میسر نہ تھے۔ دو بھائیوں کی اکلوتی بہن اور ماں باپ کی لاڈلی نے جواز دیا کہ میں نے ڈگری سجانے کے لئے نہیں اپنا آپ منوانے کے لئے حاصل کی ہے۔ اس لیے اب کراچی ہی میری منزل ہے لیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ ان دنوں تھر پارکر سے کوئلہ نکالنے کا کام شروع کیا جاچکا تھا اور تھر کول مائننگ پراجیکٹ تیزی سے ملک کے اس سب سے مہنگے اور بڑے منصوبے کے لئے افرادی قوت کو اکٹھا کر رہا تھا جن میں اعلی تعلیم یافتہ سے لے کر مزدور طبقہ بھی شامل تھا۔

کرن نے جس شعبے میں ڈگری حاصل کی اس کی ضرورت اس ادارے کو بھی تھی۔ جس نے اسلام کوٹ میں ایک شہر بسا رکھا تھا جہاں چینی انجئینرز پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ کرن کا انٹر ویو ہوا، اسے نوکری کے لئے موزوں سمجھا گیا اور بلاوا آگیا۔ وہی تھر جہاں سے کرن نے اپنے آپ کا منوانے کا فیصلہ کیا تھا، آگے بڑھنے کے لئے قدم اٹھایا تھا آج وہ اسی علاقے سے ملک کی قسمت بدلنے والوں کی صف میں کھڑی تھی۔ لیکن ان سب میں ایک بار پھر ’ دنیا والے ’ آگئے۔ سدھوانی صاحب کے سامنے سماج کے بنائے اصول اور ضابطے کسی نہ گرنے والی دیوار کی طرح کھڑے تھے اور دوسری جانب وہ بیٹی جس نے دن رات ایک کرکے اپنا آپ منوانے کا سارا زور لگا دیا تھا ایک بار پھر سے دنیا کی عدالت میں بیٹھی انتظار کر رہی تھی کہ کب اسے کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے گا۔

تاہم فیصلہ یہ ہوا کہ بیٹی کو نوکری کی اجازت دی جائے گی لیکن کچھ شرائط کے ساتھ تاکہ دنیا کو جواز دینے کے لئے کچھ تو ہو۔ یوں باپ بیٹی کو لے کر تھر کول کے دفتر جا پہنچا اور وہاں یہ عرضی رکھی کہ میری بیٹی روز صبح سے شام پابندی کے ساتھ یہاں آکر کام کرے گی ہمیں خوشی ہے کہ اس کی صلاحیت کی قدر کی گئی اور اسے موقع دیا گیا۔ لیکن وہ یہاں مستقل رہے اس پر ہم سماج کو جوابدہ ہوں گے جو ہمارے لئے اذیت ناک ہے۔

دفتر میں ہونے والی اس ملاقات میں باپ کو بتایا گیا کہ کرن آپ کا فخر ہے تو اس کے ساتھ ساتھ یہ ملک کا اور اس تھر کا بھی غرور بنے گی۔ ہم اسے وہ سب دینا چاہتے ہیں جو یہاں کام کرنے والے مرد انجینئرز کو حاصل ہے بلکہ اس کی صلاحیت ان سے بھی کہیں زیادہ ہے کیونکہ اس میں لگن ہے کچھ کرنے کا عزم ہے۔ اسے آگے بڑھنا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ دنیا کی پرواہ چھوڑ کر صرف اس کے تابناک مستقبل کی فکر کریں۔ سدھوانی صاحب نے دیکھا کہ چند سو میل دور سے آئی بیٹی کے مستقبل پر بات کرنے کے لئے وہ اپنے ساتھ نہ نظر آنے والا سماج کا دیو لے کر آئے ہیں جو گاہے بگاہے انھیں جھنجھوڑتا کہ کرن یہاں رہی تو لوگ تمہیں معاف نہیں کریں گے۔ لڑکی ہے اتنا اختیار نہ دو۔ تب انھیں ہزاروں میل دور سے آئیں چینی خواتین انجینئرز دکھائی دیں تو وہ اٹھے، بیٹی کو دعا دی اور کہا مجھے تم پر فخر ہے۔

کرن سدھوانی گزشتہ ڈیڑھ برس سے تھر کول منصو بے میں بحیثیت آئی ٹی ایکسپرٹ اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ وہ آٹھ گھنٹے کی نوکری پر یقین نہیں رکھتی وہ رات دیر تک بھی دفتر میں بیٹھ کر اپنا کام کرنے کی عادی ہے۔ کرن کا کہنا ہے کہ اس نے اس ادارے میں بہت کچھ سیکھا جو کچھ وہ یہاں کر رہی ہے اور جس طرح اس کی قابلیت میں اضافہ ہو رہا ہے وہ کسی بڑے شہر میں کام کرنے کے بعد بھی کئی سال تک نہ ملتا۔ کرن کہتی ہیں کہ اب اس کے والد دنیا کے دباؤ سے آزاد ہیں وہ اسی روز اس دیو کی قید سے چھٹکارا پا گئے تھے جب انھوں نے مجھے یہاں کام کی اجازت دی اور دعائیں دے کر رخصت ہوئے۔

رمیلہ بائی کی عمر بائیس سال ہے، شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہے۔ لیکن یہ دھان پان سی لڑکی ریگستان میں دیو ہیکل ڈمپر دوڑاتی پھرتی ہے۔ اٹھائیس خواتین ڈمپر ڈرائیوروں میں رمیلہ سب سے کم عمر ہے۔ اس نے یہ شعبہ کیوں چنا؟ جواب چونکا دینے والا تھا۔ مجھے بچپن سے ٹرک چلانے کا شوق تھا میں جب چھوٹی تھی تو دل کرتا تھا کہ گاڑی چلاوں لیکن کو ئی بڑی سی جیسے مرد چلاتے ہیں۔ میں گھر والوں سے جب یہ کہتی تو وہ ہنستے میرا مذاق اڑاتے اور یہ کہتے لڑکیاں یہ کام نہیں کرتیں جاؤ پانی بھر کر لاؤ لکڑیاں لاؤ تاکہ کھانا پکے۔ ہم تھر میں پانی کی تلاش میں میلوں پیدل چلتے ہیں۔ میں جب بھی چلتی تو سوچتی کہ کوئی ٹرک ہو جسے میں چلاوں اور یہ دھول اڑاتی ہوئی گزر جاوں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar