زینب کے قاتل کو پھانسی ہو گئی، جرم کو کب پھانسی ہو گی؟


زنیب کے قاتل کو آج تختہ وار سے لٹکا دیا گیا۔ کچھ سالوں پہلے ممتاز قادری کو لٹکا دیا گیا تھا۔ خوشی کے ساتھ کچھ دل بجھا سا ہے۔ میری کسی قسم کی کوئی ہمدردی ان دونوں کے ساتھ نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی دل کیوں بھاری ہے؟ شاید اس لئے کہ شدت سے اس بات کا احساس ہے کہ مجرم کو پھانسی لگا دی گئی ہے لیکن جرم کھلا پھر رہا ہے۔ صبح شام اور مجرموں کو جنم دیتا، آزاد فضاؤں میں سانس لیتا، ہم پر ہنستا، جرم تو کھلا پھر رہا ہے۔

کیا حقیقتاً ہم نے جرم کو ختم کر دیا ہے؟ کیا سچ میں اب کوئی مذہبی عقیدت کے نام پر کسی اور کو گولیوں سے نہیں بھونے گا؟ کیا سچ میں اب کوئی کسی بچی کو اپنی ہوس کی خاطر نہیں بھمبوڑے گا؟ سچ تو یہ ہے کہ اس کا جواب نہ میں ہے اور اسی لئے دل بجھا ہوا ہے۔ کیا کوئی کبھی بیٹھ کر بات کرے گا کہ صرف سزاؤں سے معاشرے نہیں بدلتے۔ کیا کوئی سننے کو تیارہے کہ دنیا کی کوئی ریسرچ یہ ثابت نہیں کرتی کہ محض پھانسیاں دینے سے کسی ملک میں جرم ختم ہو گیا ہو۔

کیا کوئی بات کرنا چاہتا تھا کہ اس معاشرے کی بیمار ذہنیت کی وجہ کیا ہے؟ کیا کوئی سننے کو تیار ہے کہ آخر ایسی کونسی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے ایک انسان معصوم کلی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کو ٹھیک سمجھنے لگتا ہے؟ جانے کس نے ہمیں کہہ دیا ہے کہ صرف سزا ہی ہر مسئلے کا حل ہے۔ کیا میں سزا کے خلاف ہوں؟ ہر گز نہیں! ہاں مھے زینب میں اور لائبہ میں اور مریم میں اپنی بیٹی اور بیٹے کا چہرہ نظر آتا ہے۔ ہاں میرے بچوں کو کوئی نقصان پہنچنے کا سوچے بھی تو میں بھی اس کو ایسی ہی سزا دینا چاہوں گی۔ لیکن میں اس پر بات کرنے کو بھی تیار ہوں کہ آخر اس مسئلے کا مستقل حل کیا ہے؟

جب ہم ایک انسان کو ختم کر دیتے ہیں تو کیا ہم نے اس بات کی بھی یقینی بنا لیا ہے کہ آگے آنے والے ایسے نہیں ہوں گے۔ اس کا میعار کیا ہے؟ اس پر قانون سازی کیا ہے؟ اس پر دور اندیش پالیسی کیا ہے۔ ؟ کچھ عرصہ پہلے ایک کہانی پڑھی تھی کہ کسی گاؤں میں ایک لڑکی کی زبرستی شادی طے کر دی گئی۔ لڑکی کسی اور کو پسند کرتی تھی۔ لڑکی نے بڑی کوشش کی کہ والدین کسی طرح مان جائیں لکن ہمارے عزت دار پاکستانی والدین تھے زبردستی پر تل گئے۔ لڑکی نے چوہے مار دوا کھا کر خود کشی کر لی۔

اس کے مرنے کے بعد گاؤں کے بڑوں کا ایک جرگہ بیٹھا۔ وجہ یہ تھی کہ کے وہ لڑکی اس سال میں گاؤں کی دسویں لڑکی تھی جس نے خود کشی کی تھی۔ جرگے نے بڑی سوچ بچار کی کہ آخر گاؤں میں ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ آخر کئی دنوں کے غور و فکر کے بعد جرگے نے فیصلہ کیا کہ اب سے گاؤں میں چوہے مار ادویات کی فروخت بند کر دی جائے گی۔

مجھے جانے کیوں ایسا لگتا ہے جیسے یہ پھانسیاں اسی واقعے کا ایک تسلسل ہیں۔ کوئی اصل مسئلے پر بات کرنے کو تیار نہیں ہاں سر عام پھانسی دینے کے حامی درجہ بدرجہ موجود ہیں۔ کیا آپ بھی جرم کو پھانسی دینے کو تیار ہیں یا مجرم کی پھانسی پر بغلیں بجاتے رہیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).