پھانسی کون سے مجرم کو؟


جنوری میں جب ابو کی عیاد کے لئے میں پاکستان میں تھی۔ عجیب سا وزٹ تھا پاکستان کا۔ سارا دن بس ابو کے پاس ایک کمرے میں رہنا! ان سے دھیان ہٹتا ہی نہیں تھا شروع میں تو ان کی طبیعت اتنی خراب رہی کہ وہ سو نہیں پاتے تھے پھر ڈاکٹر بدلا، اس نے دوا بدلی تو ابو کی حالت بہتر ہونا شروع ہوئی اور میں پنجاب کارڈیالوجی کے پرائیوٹ سیکٹر میں ابو کی باری کا انتظار کرنے کے لئے بیٹھی سوچ رہی تھی کہ ہمارے ملک کے حالات کب اور کیسے سنوریں گے جس ملک کے گورنمنٹ ہسپتال کے ہارٹ سپیشلسٹ سارا دن گورنمنٹ ہسپتال میں کماتے ہیں اور پھر سرِ شام اپنے پرائیویٹ کلینک کھول کے بیٹھ جاتے ہیں صرف چیک کرنے کے دوتین ہزار روپے چارج کرتے ہیں اس کے بعد جو ہوگا اس کی فیس الگ اور پھر جو جو ہوتا جائے گا اس میں اور پیسہ ڈلتا جائے گا۔ چارپانچ گھنٹوں میں یہ ڈاکٹر ساٹھ ستر ہزار روپے روزانہ کی بنیاد پر بنا رہا ہے! یہ کیسا ملک جہاں کسی کے پاس ڈاکٹر کی فیس دینے کو پیسے نہیں ہیں اور کہیں یہ عالم کہ چند گھنٹوں میں پیسوں کا ڈھیر وہ بھی روزانہ کی بنیاد پر! اور مریض ایسے ٹوٹ رہے تھے کہ لگتا تھا سارا پاکستان ہارٹ پیشنٹ ہے۔

میں جس پریشانی اور ایمرجنسی میں پاکستان آئی تھی اس کا اثر زائل ہی نہیں ہورہا تھا اور ایک بے چین دوپہر میں ٹی وی پر بار بار چلتی ہوئی خبر نے جھنجھوڑ کے رکھ دیا کہ یہ ہم انسانوں کے دیس میں ہیں یا بھیڑیوں کے جنگل میں۔ جہاں ماں باپ ایک معصوم بچی کو رشتے داروں کے آسرے پر چھوڑ کر عمرے کی سنت ادا کرنے چلے گئے۔ اور پھر جو قیامت برپا ہوئی۔ کوڑے میں پڑی ہوئی، زیادتی کی ہوئی مسخ شدہ لاش۔ میں نے تب بھی لکھا تھا کہ اس تکلیف کا کیا مداوا ہوسکتا جس سے وہ کمسن بچی اور اس جیسی بچیاں گزرتی ہیں۔ ان کی جسمانی اور ذہنی تکلیف اور موت کا کیا مداوا ہوسکتا ہے جہاں ملک لوٹ کے کھاجانے والے محض پانچ لاکھ کی ضمانت پر رہا کردیے جاتے ہیں اور سو لوگوں کا قتل کرانے والا خود اس شہر کا محافظ ہو۔

ایسے میں ایک شخص کو پکڑ کر میڈیا کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے کہ یہ ہے زینب کا قاتل! اور اس کے ساتھ ساتھ گیارہ اور بچیوں کا قاتل۔ جب گیارہ بار زیادتیاں کیں اور گیارہ قتل کیے تو اس وقت پنجاب پولیس کدھر تھی؟ ہماری ایجنسیاں ایسے پاگل، جنونی قاتل کو کیوں نہ پکڑ پائیں پھر جب سوشل میڈیا پر لوگوں نے طوفان اٹھا دیا لوگوں نے سڑکوں پر احتجاج کیا تو ایک بنا بنایا قاتل آگیا جس نے کسی پس و پیش کے بغیر ہی اقبال جرم بھی کرلیا، اتنا آسان سب کچھ! کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوا۔ آخر اتنے عرصے سے جرم پہ جرم اور ظلم پہ ظلم کرنے والا شخص پہلے کبھی کیوں پکڑا نہیں گیا اور پھر صرف لوگوں کی چیخ و پکار کو دبانے کے لئے ایک غریب بندہ بلی چڑھنے کے لئے آجاتا ہے اور پھر سوشل میڈیا پر یہ خبر بری طرح وائرل کرادی جاتی ہے۔ پھر ہمارے معصوم عوام اپنے پروفائل پہ اس ظالم انسان کی فوٹو لگا لگا کے واقعے سے جوڑنے کے لئے پورا زور لگا دیتے ہیں۔

مجھے حیرت نہیں ہوتی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے کے دودھ کے دانت کبھی ٹوٹے ہی نہیں۔ ہم آج بھی روٹی کو چوچی ہی بولتے ہیں مگر کبھی اپنے مفاد کی خاطر، کبھی اپنی لاعلمی میں اور کبھی صرف ہجوم کے ساتھ قدم ملانے کے لئے۔ ہمارے پاس اپنی کوئی منفرد، الگ سوچ یا سوچ کا تجزیہ نہیں ہوتا جہاں سوچ کے فقدان کا یہ عالم ہے ادھر کسی لاجیکل لائحہ عمل کا وجود کیسے ممکن ہوسکتا ہے اور اگر ایسا ممکن ہوتا تو قصور میں بچوں کے ساتھ قیامت خیز زیادتیوں کے بعد کوئی مجرم پکڑا جاتا کسی کو پھانسی ہوتی مگر تب الیکشن نزدیک نہیں تھا نا نہ ہی قومی، صوبائی اور نہ ہی ضمنی، پھر ہماری گورنمنٹ نے کوئی کٹھ پتلی پکڑ کے سامنے کھڑی نہیں کی۔ نہ ہی کسی پر مقدمہ چلا بلکہ اتنے بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے ظلم و زیادتی کے اس سنگین نیٹ ورک کو محض جائیداد اور زمین کے تنازعے میں نپٹادیا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی شور نہیں مچا کیونکہ اسوقت کی اپوزیشن جماعتیں بھی اپنے اپنے خواب خرگوش میں مصروف تھیں۔ آخر عمران خان نے اس کیس کے خلاف عدالت کا دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹایا کیونکہ وہ بھی بڑی مچھلیوں پر جال ڈالنے پہ مصروف تھے مجھے تکلیف ہوتی ہے جب عام آدمی رلتا ہے اور سب کی نظریں محض بڑی مچھلیوں پر پڑرہی ہوتی ہیں۔

مثبت انداز سوچ اچھا ہےمگر کب تک؟ ہم صرف ٹی وی پر اعلانات سننے میں مصروف ہیں۔ سوشل میڈیا پر پوسٹس لگانے میں غلطاں۔
اور کتنے دنوں سے فیس بک پہ زینب کے قتل کے مجرم کی پھانسی کی سرخ پٹیاں چل رہیں اور پھر آج ٹی وی پر بھی خبر چل رہی تھی کہ زینب کا قاتل اپنی زندگی کی آخری گھڑیاں گن رہا ہے تو دل سے آہ نکلی کہ پتہ نہیں کون مارا جائے گا ؟

جنوری میں ہونے والے اس واقعے پر اس وقت کی حکومت نے فوری توجہ دی کہ اسی سال الیکشنز تھے اور اس طرح وہ عوام کی ہمدردیاں بٹور لیں گے مگر کیا کسی نے یہ سوچا کہ اگر اصل مجرم تک نہ پہچا جا سکا تو ہم ایسی اور کتنی زینبوں کی زیادتی شدہ، مسخ لاشیں کوڑے کے ڈھیر سے سمیٹیں گے۔ یہ گھروں میں کھلکھلانے والے پھول کب تک اسی طرح نوچے جاتے رہیں گے۔ انصاف! اور ہمارے پاکستان میں! کب مل سکے گا! کب اپنے مفادات سے ہٹ کر اور ہجوم کے قدموں کی دھول بننے کی بجائے ہم اپنے اندر کے سچ کی آواز پر لبیک کہہ سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).