پاکستان تحریک انصاف خواتین کو نمایاں نمائندگی دینے کا وعدہ پورا کر پائی ہے؟


پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی خواتین پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں خواتین ارکان پارلیمان کو نمایاں نمائندگی نہ دیے جانے پرسوال اٹھا رہی ہیں۔

قومی اسمبلی کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی قومی اسمبلی کی 151 نشستوں میں سے 31 نشستیں خواتین کے پاس ہیں اور 24 وفاقی وزرا میں صرف تین خواتین ہیں جبکہ چھ وزرائے مملکت میں صرف ایک خاتون ہیں۔

پیر کو قومی اسمبلی کے سپیکر کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں 25 جولائی کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے ایک 30 رکنی پارلیمانی کمیٹی کا اعلان کیا گیا۔ اس کمیٹی میں صرف ایک خاتون رکن کو شامل کیا گیا ہے۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

’دھاندلی‘ کی تحقیقات: 30 رکنی پارلیمانی کمیٹی کا قیام

عمران کی کابینہ میں تبدیلی کا عنصر ناپید

’یہ الیکشن تمام دھاندلی زدہ الیکشنز کی ماں ہے‘

نئی پارلیمان میں فرینڈلی یا ایک منقسم حزب اختلاف؟

اس سے پہلے جب ملک کی معاشی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اکنامک ایڈوائزری کونسل تشکیل دی گئی تو اس کے 18 ممبران میں ایک بھی خاتون شامل نہیں تھیں۔

سنہ 2013 میں جب سابق وزیر اعظم نواز شریف کی وفاقی کابینہ نے حلف اٹھایا تو اس میں ایک بھی خاتون وفاقی وزیر نہیں تھیں جبکہ وزرائے مملکت میں تیں خواتین شامل تھیں۔

رواں سال 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات سے قبل شاہد خاقان عباسی کی بطور وزیر اعظم کابینہ میں تین خواتین وفاقی وزیر جبکہ صرف ایک خاتون لیلہ خان ایک ماہ کے لیے وزیر مملکت بنیں۔

گذشتہ روز بننے والی پارلیمانی کمیٹی میں حزب اختلاف کی جانب سے ایک بھی خاتون نہیں ہے۔ اس کی وجہ جاننے کے لیے متعدد اراکینِ اسمبلی سے جب رابطے کی کوشش کی گئی تو کسی خاتون رکن پارلیمان نے جواب نہیں دیا۔

خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف ملک کی ان سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے جن کی مقبولیت کی ایک وجہ ان میں خواتین کی بڑے پیمانے پر شرکت تھی۔

پی ٹی آئی کے سنہ 2013 کے عام انتخابات سے پہلے ہونے والے جلسوں میں خواتین کارکنوں کی کثیر تعداد نے اسے دیگر جماعتوں سے مختلف بنایا اور سیاسی مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف میں خواتین اور نوجوانوں کی بھرپور شرکت کے بعد دیگر سیاسی جماعتوں جن میں دائیں بازو کی جماعتیں بھی شامل ہیں، نے اپنے سیاسی جلسوں میں خواتین اور نوجوانوں کی شرکت یقینی بنانے کی جانب توجہ دینا شروع کی۔

پاکستان تحریک انصاف اپنے منشور میں بھی خواتین کو نمایاں حیثیت دینے کی بات کرتی رہی ہے۔

تو کیا بظاہر خواتین کی بڑی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی جماعت کے اقتدار میں آنے سے بھی قانون ساز اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی واضح انداز میں نہیں ہوتی؟

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکن فرزانہ باری سمجھتی ہیں کہ سیاسی جماعتیں خواتین سے بس ووٹ لینے کی حد تک ہی کام چلاتی ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’پارلیمان میں خواتین مردوں سے بہتر کارکردگی دکھا رہی ہیں، بل پیش کرتی ہیں، قانون سازی میں آگے آگے ہیں، 60 فیصد پارلیمانی بزنس خواتین کنڈکٹ کر رہی ہیں لیکن کمیٹیوں میں خواتین نہ ہونے کے برابر ہیں۔ انھیں خاص طور پر ان کمیٹیوں کا چیئرمین نہیں بنایا جاتا۔ خواتین کو بس ووٹر اور سپورٹر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔‘

فرزانہ باری کہتی ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک سیاسی جماعت کی قیادت کی سوچ تبدیل نہیں ہو گی، خواتین کی حیثیت میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔

ان کے خیال میں ‘خواتین کو خود سے کمتر سمجھنے کی سوچ رکھنے والے ارکان اگر پارلیمان میں پہنچیں تو وہ سیاست میں آنے والی خواتین کو بھی خود سے کمتر سمجھتے ہیں اور انھیں اہم عہدوں سے الگ رکھا جاتا ہے۔‘

فہمیدہ مرزا

سیاسی تجزیہ کار پروفیسر طاہر ملک کے خیال میں اہم عہدوں اور وزارتوں کے لیے ‘چناؤ کی بجائے نامزدگیاں’ کی جاتی ہیں۔

ان کے خیال میں ملک میں صرف پیپلز پارٹی نے خواتین کو اہم عہدے دیے لیکن دیگر سیاسی جماعتوں نے ووٹ اور سپورٹ کی حد تک خواتین کو اہمیت دی۔

‘پی ٹی آئی نے اگر فہمیدہ مرزا کو وزارت دی تو اس کی وجہ ان کا خاتون سیاستدان ہونا نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ موثر سیاسی دھڑوں کی حمایت ہے جن کی عمران خان کی پارٹی کو اسمبلی میں ضرورت تھی۔ حکومت کی واضح اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے اتحادیوں کو خوش کیا گیا ہے’۔

ان کا کہنا ہے کہ ’زرتاج گل کا انتخاب ایک خوش آئند عمل تھا لیکن ایسی مثالیں عام طور پر پاکستان میں زیادہ نہیں ملتی ہیں’۔

پروفیسر طاہر ملک سمجھتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر قیادت اور اہم عہدے مردوں کے پاس ہوتے ہیں جن میں سے بیشتر روایتی سوچ رکھتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت سازی سے متعلق کوئی شرائط نظر نہیں آتی ہیں، فیصلے سیاسی روایات کے مطابق ہوتے ہیں اور پاکستان میں سیاسی روایات مردوں کی حمایت میں جاتی ہیں۔ ‘

سیاسی مفادات پر ‘کمپرومائیز اور خود خواتین کا اپنے حقوق کے لیے مضبوط آواز کے طور پر نہ ابھرنا اور سیاسی دباؤ نہ ہونا خواتین سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہیں’۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp