کامیابی کا راز


اسٹیفن کووے اپنی کتاب کام یاب ترین لوگوں کی سات عادات میں حضرت یوسفؑ کی مثال دیتا ہے۔ میرے خیال میں یہ تمام عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ مثال کچھ یوں ہے کہ کامیاب لوگ بدترین حالات میں بھی بہتری کی راہ نکال لیتے ہیں، جب کہ نا کام لوگ بہترین حالات میں بھی کیڑے نکال کر حالات اپنے اور ارد گرد کے لوگوں کے لیے ابتر بنا لیتے ہیں۔ مثلا نبی زادے حضرت یوسفؑ جو باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے، کنویں میں ڈال دیے گئے، اس کے بعد غلام بنا کر بیچ دیے گئے۔ پھر تمام تر پاک بازی کے باوجود ایک گھٹیا الزام لگا کر قید خانے میں ڈال دیے گئے۔

ہر انسان کی طرح ان کے پاس دو راستے تھے یا تو اس زیادتی پر اپنے اور زمانے سے احتجاج کرتے رو رو کر خود کو کوئی روگ لگا لیتے اگر کچھ ساتھی اکٹھے کر پاتے تو ڈاکے ڈال کر اپنا انتقام زمانے کے پسے ہوئے طبقے سے لیتے۔

دوسرا راستہ تھا کہ انھوں نے جیل میں تعلیم شروع کی۔ لوگوں کو سیدھا رستہ دکھانا شروع کیا، خوابوں کی تعبیر بتانی شروع کی اور اپنی قابلیت بادشاہ کی نظروں میں لانے میں کام یاب ہو گئے۔ وزیر منتخب ہوئے اور پہلے اپنے مقدمے کا سچ سامنے لا کر بری ہو کر کرسی سنبھالی۔

ہمارا صدقہ اور زکوة کا مفہوم بہت آوٹ ڈیٹڈ ہے۔ ہم اشارے پر دس روپے دے کر جان کی بلا ٹال دیتے ہیں۔ یورپ کمیونٹی سروس کر رہا یے جس میں آپ مفت مشورے، ٹیکنیکل مشاورت، صفائی کسی مریض کو ٹائم دینے سے لے کر ہزاروں مفید کام کر رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ جن ہندوستانیوں کو ہم غربت اور غیر مہذب کے طعنے دیتے تھے، آج وہاں بھی دنیا بدل رہی ہے۔

دوسرا مسئلہ میری نظر میں یہ ہے کہ ہم فٹنس کو شادی کروانے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں، شادی کے بعد لڑکی خیمہ بن جاتی ہے اور لڑکا ڈھول جب کہ ڈھلتی عمر کے ساتھ فٹنس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ یہی رویہ ہمارا ہروفیشنل لائف میں بھی ہوتا یے، ہماری تمام محنت ایک اچھی نوکری کے حصول تک ہوتی ہے۔ کم سے کم میں نے کسی انجینیر کو اپنی صلاحیتیں مزید پڑھ کر پالش کرتے نہیں دیکھا۔ گورنمنٹ جاب میں ترقی کے لیے کورس کرنا ایک الگ بات ہے، لیکن اپنے شوق سے اپنے آپ کو پالش کرنے کا ٹرینڈ ہم میں بحیثیت قوم نہیں پایا جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).