ہبل آخری سانسیں لے رہی ہے


آج سے 28 سال پہلے یعنی 1990ء میں نسل انسانی نے وہ عظیم الشان شاہ کار زمین کے مدار میں بھیجا، جس نے کائنات کے دُور دراز محلّوں میں جھانک کر ہمیں نئے سے نئے کائناتی گوشوں سے رُو شناس کروایا۔ یقیناً ہبل ٹیلی اسکوپ کا انسانیت پر عظیم احسان ہے اور ہم اسے بطور ہیرو فلکیاتی میدان میں یاد رکھیں گے۔ ہبل ٹیلی اسکوپ کے باعث آج ہمیں کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار معلوم ہے؛ ہمیں یہ بھی معلوم ہے، کہ سیارے صرف ہمارے سورج کے گرد نہیں بلکہ کائنات میں دیگر ستاروں کے گرد بھی موجود ہیں۔ Pillars of creation جیسی با کمال تصویر اور بظاہر خالی دکھائی دینے والی جگہ سے دس ہزار کہکشائیں بر آمد کرنا بھی ہبل ٹیلی اسکوپ کے بڑے کارناموں میں سے ایک ہے۔

ہمیں معلوم ہے کہ ہبل ٹیلی اسکوپ زمین سے 568 کلومیٹر کی بلندی پر موجود ہے اور ساکن نہیں ہے، بلکہ زمین کے گرد چکر بھی لگا رہی ہے۔ اس کی رفتار 8 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ ایسے یہ تقریباً ہر 97 منٹ میں زمین کا ایک چکر مکمل کر لیتی ہے۔ چوں کہ زمین کے گرد گھومنے کی وجہ سے ہبل ٹیلی اسکوپ کسی ایک پوائنٹ پر فوکس نہیں کر سکتی تھی، لہٰذا اس کو ایک جگہ فوکس رکھنے کے لیے جائرو اسکوپ نامی آلے کا استعمال کیا گیا، اس مقصد کے لیے اس میں چھہ جائرو اسکوپس لگائے جو وقتاً فوقتاً خراب ہوتے گئے، خلا میں معلق ٹیلی اسکوپ کم از کم تین جائرو اسکوپ کے سہارے فوکس کر سکتی ہے۔ وقت گزرتا گیا اور 8 اکتوبر 2018ء کو ناسا نے اعلان کیا کہ ہبل ٹیلی اسکوپ کا چوتھا جائرو اسکوپ بھی خراب ہو گیا ہے؛ جس وجہ سے یہ عظیم ٹیلی اسکوپ safe mode پر چلی گئی ہے۔

جائرو اسکوپ کی خرابی کے باعث اس کو فوکس کر کے، قیمتی ڈیٹا اکٹھا کرنا ممکن نہیں رہا؛ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں، ہبل ٹیلی اسکوپ ”بیڈ ریسٹ“ پر ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ہبل ٹیلی اسکوپ ”بیمار“ ہو گئی ہو بلکہ اس سے پہلے بھی یہ مختلف مسائل کا شکار رہی ہے؛ جیسے لانچنگ کے فوراً بعد معلوم ہوا کہ اس کا primary mirror ٹھیک طرح فوکس نہیں کر پا رہا؛ جس وجہ سے تین سال تک ہبل سے ٹھیک تصاویر نہ لی جا سکیں۔ ایسے ہی 1999ء میں خرابی کے باعث یہ ٹیلی اسکوپ کئی ہفتوں تک sleeping mode پر رہی، اس دوران کئی بار خلاء باز اس کی مرمت کرنے جاتے رہے؛ آخری بار اس کی مرمت 2009ء میں کی گئی۔ ہبل ٹیلی اسکوپ سے شان دار ڈیٹا اکٹھا ہونے کی وجہ سے سائنس دانوں کو تقویت ملی اور ناسا نے ہبل سے کئی گنا تیز James Webb Space Telescope (JWST) لانچ کرنے کا اعلان کیا، جسے 2021ء میں خلا میں بھیجا جائے گا اور اس ٹیلی اسکوپ کے باعث سائنس دان بہت زیادہ پر امید ہیں، کہ ہمیں ایسے کائناتی علاقے دیکھنے کا موقع ملے گا جو آج تک کوئی نہیں دیکھ پایا۔

ہماری کوشش ہے کہ ہبل ٹیلی اسکوپ سے سبق سیکھ کر JWST میں خود کار نظام ترتیب دیا جائے تا کہ خرابی کی صورت میں زمین ہی سے اس کو ٹھیک کیا جا سکے؛ کیوں کہ یہ ٹیلی اسکوپ ہبل کے مقابلے میں زمین سے بہت دور ہو گی۔ ہبل ٹیلی اسکوپ 568 کلومیٹر کی بلندی پر موجود ہے، جب کہ JWST کو زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر کی بلندی پر رکھا جائے گا۔ یاد رہے چاند کا زمین سے فاصلہ 3 لاکھ 84 ہزار کلومیٹر ہے، یعنی JWST چاند سے بھی کئی گنا دور موجود ہو گی۔ یہ ہبل کی طرح زمین کے گرد نہیں بلکہ سورج کے گرد چکر لگائے گی۔ ہبل کی خرابی کو اگر ایک طرف رکھا جائے تو پریشان کن صورت احوال اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب معلوم پڑتا ہے کہ ہبل ٹیلی اسکوپ کا زمین سے فاصلہ دن بدن کم ہو رہا ہے اور یہ 2030ء تک زمین سے ٹکرا جائے گی۔ لیکن چوں کہ اس میں docking system موجود ہے لہٰذا سائنس دانوں کو امید ہے کہ زمین سے ٹکرانے سے پہلے پہلے خلائی شٹل کو اس سے منسلک کر کے، اس کا رُخ سمندر کی جانب کر دیا جائے گا، تا کہ یہ ٹیلی اسکوپ آبادی پہ نہ گرے۔

ہبل ٹیلی اسکوپ بلا شبہ عظیم انسانی کارناموں میں سے ایک ہے، جس نے فلکیات اور انسانی سوچ کو نئے خیالات سے رُو شناس کروایا۔ کائنات کو سمجھنے میں ہمیں مدد فراہم کی۔ ہبل ٹیلی اسکوپ ایک کام یاب پراجیکٹ تھا، جو اب رِٹائرمنٹ کے قریب ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا JWST اس جیسا بہترین پرفارم کر پائے گی؟ نئی ٹیلی اسکوپ کائنات کے کن رازوں سے پردہ اٹھانے میں ہماری رہ نمائی کرے گی۔ ہبل اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے؛ سائنسدان کوششوں میں مصروف ہیں کہ اگر جائرو اسکوپ ٹھیک نہیں ہو پاتا، تو اسے دو جائرو اسکوپ ہی سے چلایا جائے اور اس کے بعد شاید ایک جائرو اسکوپ کی مدد سے آپریٹ کیا جائے۔ ہمیں نئی جہتوں سے متعارف کروانے پر یقیناً نسل انسانی ہبل ٹیلی اسکوپ کی کاوشوں کو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).