رابعہ الربا اور ڈاکٹر خالد سہیل خدا سے ڈریں
آئیے آج میں آپ کو دو ظالم لوگوں سے ملواتی ہوں، جو ظلم تو کرتے ہیں مگر ایسی سفاکی سے کہ کیا کہیے۔ جس جام میں یہ زہر گھول کر پِلاتے ہیں، وہ ہوش اڑاتی، بے خوابی کی آخری دہلیز تلک لے جاتی ہے۔ ارے ظالمو! ہم دنیا دار لوگ ہیں؛ ہم صبح کاذب کا نشہ کیا جانیں! ہمیں کیا معلوم جب رات کی چاندنی انگڑائی لیتی، صبح کی پہلی کرن کا ہاتھ تھامتی ہے، تو کیسے ان کی خلوت کا احترم کیا جاتا ہے!
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کے میں کوئی قصیدہ لکھنے والی ہوں، تو ابھی سے معافی طلب کرتی ہوں۔ ارے حضور! ظلم کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے۔ ہم سے کوئی پوچھے، یہ کیا بات ہوئی کے آپ نے کسی انسان کو اپنی تحریر کے حصار میں قید ہی کر ڈالا؟ نیند میں ڈوبے رابعہ بی بی کے خماری بھرے خطوط، جو خود تو اپنی راتوں میں قلم کی طاقت سے چراغاں کرتی ہیں، مگر ہماری نیندیں تو نہ چرائیں۔
محترمہ رابعہ! تمھارے نیند میں ڈوبے خطوط مجھے کسی اور دنیا میں لے جاتے ہیں، مگر ایک بات بتاؤں بھلا تم اس خماری میں اس قدر حقیقت پر مبنی مگر صوفیانہ رنگ میں رنگے وظیفے لکھتی کیسے ہو؟
ظالم لڑکی! آج مجھے اس جام کو پینے اور تمھاری تحریروں کو پڑھنے سمجھنے اور ان پر لکھنے کے لیے رات بھر جاگنا پڑا ہے۔ جس کا تاوان تو تمھیں ادا کرنا پڑے گا؛ میرے سوالوں کے جواب دے کر۔ میں بھی دیکھنا چاہتی ہوں دو لمحوں کے میلاپ کی سرخی، سفیدی میں کیسے بدلتی ہے۔ میں بھی تو جانوں، صبح صادق کا ستارہ کسی دوسری زمین پر کیسے چل نکلتا ہے۔
ظاہر ہے اس جرم میں تم تنِ تنہا نہیں ہو، تمھارا شریک کار، بلکہ اس مجرمانہ سازش میں تمھارا شریک، ایک درویش بھی ہے، جو تم سے بھی زیادہ شاطر ہے۔ وہ ہمیں روحانیت اور صوفیانہ انداز بیان کی لذتیں دیے بنا ہی نفسیاتی طور پر ہپناٹائز کرتا ہے اور اپنے طبیب ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، کبھی تو سفر خضر پر لےجاتا ہے، کبھی مشرق اور مغرب کی سیر کرواتا، قوسِ قزح کے رنگ سمجھاتا، پتا نہیں کب اپنی گرین زون تھراپی کے سمندر میں لے ڈوبتا ہے، کہ پتا ہی نہیں چلتا یہ ہوا کیا ہے ہمارے ساتھ۔
جناب، آپ نے کب ہمیں ذات کے غارِ حرا سے رُو شناس کروا دیا، بتایا تو ہوتا! اپنے پر جوش دریا سے نکل کر سمندر میں ملنے کی کہانی ایسے سنائی ہے، کہ مجھے زندگی بھر کے نہ سمجھ میں آنے والے رازوں کی گتھیاں سلجھتی محسوس ہونے لگیں ہیں۔ میرے یہ راز کیسے جان لیے اور اپنے تجربوں، بیتیوں اور شعروں میں بیان کر دیے۔ یہ ظلم ہے۔
؎ عجب سکون ہے، میں جس فضا میں رہتا ہوں
میں اپنی ذات کے غارِ حرا میں رہتا ہوں
وہ دریا بن کے بہتا تھا تو کتنا شور کرتا تھا
سمندر میں وہ جب سے آ ملا خاموش رہتا ہے
آپ دونوں کے یہ ‘ادبی محبت نامے’ ایک کھلی سازش ہیں، مجھ جیسے کند ذہن انسان کے لیے، جسے عشق کے سمندر میں ڈبکیاں لگانے کا شوق ہے، مگر اصول عاشقی سے نابلد، دل ہر لحظہ شرمندہ اور نا اُمید ہے۔ اس ادبی محبت نامے کا ہر ورق، ہر لفظ، مجھ سے مخاطب ہے۔ میرا قصہ بیان کر رہا ہے۔
دو درویشوں کی یہ کاوش ایک پینٹنگ ہے، اس کا ہر رنگ محبت عجز و انکساری، اختلاف رائے اور احترم رائے کی حسین پرتوں میں لپٹا ہے۔ جو سحر انگیز حد تک پر تاسف ہے۔ قارئین کے لیے ایک سمندر ہے، جو علم و دانش کا پر سکون سونامی لیے منتظر ہے۔ جس طرح درویش نے اپنے بچپن کی کہانی سنائی ہے اپنے گھر خاندان خاص کر والد کا سفر ذات، پھر والدہ کی محبت، نصیحت اور علالت کا بیان؛ یہ ایک نوجوان کے لیے سبق اور گہرائی لیے ایک راز ہے۔ جسے پڑھنے اور سمجھنے سے ایک نسل کے سنورنے کا انتظام موجود ہے۔ پھر اپنی ذات کو جاننے پہچاننے اور دریا کنارے چلتے چلتے اپنے خوابوں کا چناؤ اور انھیں شرمندہ تعبیر کرنے کا عزم، یہ کہانی نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہے۔ جو درویش نے خود اپنے راز افشاں کر کے بہت خوب صورتی سے آشکار کیا ہے۔
پھر رشتے دوستیاں اور زندگی کے رنگ، علم کی کھڑکی سے نکلتی روشنی کی کرن اور کسی دیو مالائی کہانی کی طرح حسین سفر جو درویش کا نہیں آپ کا اور میرا ہے۔
دوسری طرف جب رابعہ عورت اور مرد کی نفسیاتی کہانی بیان کرتی ہے، عورت اور مرد کے رشتے کا احوال اور محبتوں کے سائے میں لپٹے نفسانی جذبات کا قصہ سناتی ہے، تو میں تو کیا ہر عورت حیران رہ جاتی ہے۔ رابعہ تم نے بہت ظلم کیا، وہ سب جو عمل اور رد عمل کا فلسفہ تم بیان کرتی ہو، کیا جانتی ہو یہ ایک فلسفہ نہیں ہے، یہ ایک بہت کڑوا سچ ہے۔ یہ ایک جواب ہے ان سب سوالوں کا جو ہزاروں سالوں سے مرد کی سمجھ سے بالا تر رہے ہیں۔ تم نے ایسے کیسے سب آشکار کر دیا؟
تمھارے الفاظ چرانا نہیں چاہتی، مگر خود کو روک نہیں پا رہی۔ ’’ہم سب‘‘ کے پڑھنے والوں کی لیے بس یہ سطریں نقل کر رہی ہوں، تا کہ باقی وہ خود پڑھ سکیں:
“جو جتنا زیادہ ڈگری یافتہ ہے، اتنا زیادہ عورت کا استحصال کرتا دکھائی دے گا۔ وہ با قاعدہ جذباتی، زبانی، جسمانی، ذہنی، کرداری اطوار استحصال، تعلیم کے ستون پہ چڑھ کر سیکھ جاتا ہے اور پھر اس سے تا عمر کھیلتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کو علم بھی نہیں ہوتا، کہ اس کے آس پاس مکافات عمل شروع ہو چکا‘‘۔
درویش کے لفظوں میں اس کا جواب بھی کیا خوب ہے:
“درویش جب بھی رابعہ کے خطوط میں مرد اور عورت کے رشتے کی کہانی پڑھتا ہے، تو تھوڑی دیر کے لیے دُکھی ہو جاتا ہے، لیکن جب رابعہ کی ہمت اور بصیرت کی کہانی پڑھتا ہے، تو دوبارہ سکھی ہو جاتا ہے”۔
کس طرح تم نے عورت کو، اس کے احساسات کو، اس کے جذبات کو، اس کے مرد سے رشتوں کو بیان کیا ہے، کہ ہر خط میں صدیوں کے بنے کئی راز کھول دیے ہیں، جو بلا شبہ غنودگی یا خماری ہی میں ممکن ہے۔ ہوش کی زندگی میں ایسے موتی پرونا ممکن نہیں ہے۔
آخر میں بس اتنا کہوں گی کے اگر آپ بریک ڈاؤن سے بریک تھرو کے اس سفر کو نہیں جان سکے، تو پھر اپ نے زندگی کا بہت حسین باب مس کر دیا ہے؛ جس کو پڑھے بنا آگاہی، حکمت اور دانائی کی تلاش کا آپ کا یہ سفر ادھورا ہے۔
درویشوں کا ڈیرا ایک کتاب نہیں، یہ خواب نامے ہیں، جو تعبیروں سے آراستہ زندگی کی کڑیوں کو جوڑتے، یہ یقینا تضاد کی خوب صورتی میں لپٹا ایک تحفہ ہے۔ میں اس سحر میں کب سے گرفتار ہوں اور اب آپ کو بھی دیکھنا چاہتی ہوں۔
ناچیز
ہادیہ یوسف
- آئیں بلاول کو اردو سکھائیں - 12/03/2022
- عورتیں اب بے شرمی سے اپنی فطری خواہش کا اظہار کیوں کرنے لگی ہیں - 29/08/2021
- روٹی والی - 23/02/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).