انیسویں صدی میں اُردو ناول


1857ء میں جو کچھ پیش آیا، اسے خواہ کسی عنوان سے یاد کیا جائے، غدر یا بغاوت یا جنگِ آزادی، اس نے مسلمانوں کو بالخصوص مایوس اور شرمندہ کیا۔ بعض اسے رضائے الٰہی سمجھ کر صابرانہ انداز میں چپ ہو گئے۔ بعض نے اپنی شکست کے اسباب پر غور و خوض کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ضرور ہماری ثقافت میں، جس کا ادب ایک اہم حصہ تھا، کوئی بنیادی نقص ہے اوراس کی اصلاح ناگزیر ہو چکی ہے۔ مرعوبیت کے اس عالم میں ثقافت کے بہت سے پہلوؤں کو ازکار رفتہ اور فضول قرار دیا گیا۔ ادب میں پرانی اوضاع پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوئی۔
ان تبدیلیوں نے ناول نگاروں پر کیا اثرات مرتب کیے، اس کا جائزہ محمد نعیم نے اپنی کتاب ”اُردو ناول اور استعماریت‘‘ میں لیا ہے۔ یہ مقالہ ایم فل کے تقاضوں سے نمٹنے کے لیے لکھا گیا تھا۔ غالباً اسے کتابی صورت میں پیش کرنے کے لیے کچھ رد و بدل کیا گیا ہو گا۔

ناول کا جو تصور اب ہمارے ذہن میں ہے، وہ بعینہ اس انداز میں انیسویں صدی کے نصف اوّل میں موجود نہ تھا۔ فکشن بے شک لکھا جاتا تھا۔ قصے کہانیاں اور داستانیں موجود تھیں۔ بہت سی مثنویوں کو منظوم فکشن کے ذیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ یہ سب کچھ سہی لیکن حقیقت نگاری کی، جسے انیسویں صدی کے مغربی نالوں میں بالعموم جزو اعظم سمجھا جاتا ہے، گنجائش کم تھی۔ ویسے تو بعض قصے اس طرح کے تلاش کیے جا سکتے ہیں، جن میں مافوق الفطرت واقعات موجود نہیں۔ مثلاً ”باغ و بہار‘‘ میں پہلے درویش کا قصہ، جسے میلوڈرامائی یا گوتھک فکشن کے قریب سمجھنا چاہیے، تقریباً حقیقت پسندانہ ہے۔

ناول میں کیا ہونا چاہیے، ناول کیسے لکھا جائے، اچھے ناول کو کیسے پہچانا جا سکتا ہے، اس کے لیے انیسویں صدی کے اُردو ناول نگاروں کے سامنے کوئی معیار نہ تھا۔ سرشار، نذیر اور رسوا کو چھوڑ کر، انگریزی سے ان کی شناسائی یا واجبی تھی یا سرے سے مفقود تھی۔ سرشار نے ”دون کیخوتے‘‘ کو ”خدائی فوج دار‘‘ کی شکل دی، لیکن اس سے کچھ سیکھ نہ سکے۔ انگریزی سے ناواقفیت کی بنا پر ہمارے ادیبوں کی رسائی چارلز ڈکنز، جورج ایلیٹ، ولکی کولنز، جین اوسٹن وغیرہ تک نہ ہو سکی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انگریز حاکموں کو شاید یہ منظور بھی نہ تھا کہ وہ انگریزی ادب کے اعلیٰ نمونوں سے فیض اٹھائیں۔

ایک نئی مصیبت جو انگریزی تسلط کے جلو میں رائج ہوئی، وہ چھاپے خانوں اور اشاعتی کاروبار پر قوانین کا نفاذ تھا۔ اس طرح کی کوئی علت پہلے موجود نہ تھی۔ ان قوانین کے نفاذ کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ انگریزی راج کے خلاف کچھ نہ چھپنے پائے اور جو لکھا جائے وہ یا تو بے ضرر ہو یا انگریزی حکومت کی پالیسیوں یا انگریزی تہذیب کو تحسین کی نظر سے دیکھے۔ ان پابندیوں سے لکھنے والوں کی آزادیِ اظہار پر خاصا اثر پڑا ہو گا۔

تمام ہندوستان انگریزوں کے زیرِ نگیں نہیں تھا۔ کم از کم ایک تہائی حصہ مختلف ریاستوں کے پاس تھا۔ ان ریاستوں کو آزاد نہیں سمجھا جا سکتا، لیکن بعض داخلی امور میں وہ اپنی مرضی کر سکتی تھیں۔ شاعروں اور ادیبوں کے لیے یہ ممکن تھا کہ خود کو کسی نہ کسی بڑی یا چھوٹی ریاست سے وابستہ کرلیں۔ اس لیے محمد نعیم کا یہ خیال درست نہیں کہ ادیب آزاد نہیں تھا اور استعماری محکموں کے ماتحت تھا۔ بے شک قصائد اور مثنویات کی مقبولیت میں فرق آیا۔ لیکن داستانیں لکھی بھی گئیں اور شائع بھی ہوئیں۔ غزل کا تسلسل برقرار رہا، اگرچہ اس کا مزاج وقت کے ساتھ کچھ نہ کچھ بدلتا رہا۔

ہمارے سامنے انیسویں صدی میں لکھے گئے سارے اُردو ناول نہیں ہیں۔ اس ضمن میں ابھی بہت کام ہونا باقی ہے۔ لہٰذا نظر عموماً نذیر احمد، حالی، سرشار اور شاد کے ناولوں یا نیم ناولانہ تحریروں سے آگے نہیں جاتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان ناول نگاروں کے بہت سے کام کو انگریز حکمرانوں کی ہم نوائی قرار دیا جا سکتا ہے۔ لکھنے والوں کو سرکاری پالیسیوں کی براہِ راست یا بالواسطہ تائید سے دنیوی فائدے بھی حاصل ہوئے ہوں گے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایک دقت یہ تھی کہ مقامی باشندے تعلیمی یا تکنیکی اعتبار سے کتنے ہی قابل کیوں نہ ہوتے، ان کا مرتبہ پھر بھی انگریزوں سے پست رہتا۔

آج کل اکثر یہ پڑھنے میں آتا ہے کہ جب یورپ میں یونیورسٹیاں بن رہی تھیں، تو یہاں بادشاہ محلات اور مقابر تعمیر کرنے میں مصروف تھے۔ یہ بے دلیل بات ہے۔ جیسا کہ نعیم نے لکھا ہے ہندوستان میں کمپنی کے ورود نامسعود سے قبل بھی تعلیم کا باقاعدہ نظام موجود تھا۔ اس کے بعض پہلو اتنے ترقی یافتہ تھے کہ انگلستان تک میں ان کی نقل کی گئی۔ ملک کے طول و عرض میں ہزاروں مدرسے تھے اور تعلیم کا معیار بلند تھا۔ البتہ ان میں سائنسی علوم سے واسطہ نہیں رکھا گیا تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس وقت سائنسی علوم کی اہمیت کا کوئی تصور ہمارے پاس موجود نہ تھا۔ یہی نہیں، آزاد ہونے کے بعد بھی ہم مدارس کے نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں ناکام رہے یا ہم نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

انیسویں صدی کے اُردو ناولوں پر استعماری اثرات کا یہ عمدہ جائزہ ہے، شاید نذیر احمد اور سرشار کے ناولوں کو زیادہ باریکی سے دیکھنے کی ضرورت تھی۔ اس کی گنجائش نہیں نکل سکی۔ ”توبتہ النصوح‘‘ کو زیادہ توجہ سے پڑھا جائے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ نذیر احمد کے ہاں ہم دردی کی زیریں رو کلیم، حتیٰ کہ مرزا ظاہر دار بیگ کے حق میں ہے، نصوح کے حق میں نہیں۔ نصوح ایک سطح پر انگریزی راج کی علامت ہے اور کلیم اور مرزا ظاہر دار بیگ، اپنی تمام منافقت کے باوجود، مسلمانوں کے عمومی مزاج کو زیادہ عمدگی سے پیش کرتے ہیں۔ نصوح کا کلیم کے کتب خانے کو جلانا اور میکالی کا یہ قول کہ مشرقی علوم کا تمام ذخیرہ محض بیکار ہے، ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ علاوہ ازیں نذیر احمد نے ہمیشہ انگریزوں کا کہا مانا بھی نہیں۔ خود لکھتے ہیں: ”اصل کتاب کے حاشیے پر۔ جناب ڈائریکٹر بہادر (میتھیوکیمسن) اور جناب لیفٹننٹ گورنر بہادر (سر ولیم میور) نے اپنے دست خاص سے اکثر جگہ کچھ عبارت پنسل سے لکھ دی تھی۔ چناں چہ مصنف نے۔ جہاں ممکن ہوا۔ کتاب میں ترمیم کر دی۔ ‘‘ بطرزِ شائستہ یہ کہنا مقصود تھا کہ صاحب بہادروں کی ہدایات اکثر جگہ مہمل تھیں۔ ”فسانۂ آزاد‘‘ میں آزاد کا ترکی جا کر روسیوں کے خلاف لڑنا بھی ایک ڈھکا چھپا احتجاج ہے۔ ہندوستان میں رہ کر انگریزوں کے خلاف ہتھیار اٹھانا ممکن نہ رہا تھا، لیکن ترکی جا کر ایک اور استعماری یورپی طاقت سے نبرد آزما ہونے کا موقع تو موجود تھا۔

عورتوں میں جو رسمیں مقبول تھیں، ان کی برائی تو ناول نگاروں نے کی ہے، لیکن اس مسئلے پر غور نہیں کیا کہ بالائی اور متوسط طبقے میں عورتوں پر جو پابندیاں عائد تھیں، تو یہی رسوم، جنہیں واہیات کہا گیا، ان کی بے رنگ زندگی کو ذرا بارونق بنا دیتی تھیں۔ انیسویں صدی کے برصغیر کے معاملات کو سمجھنے کے لیے ایک دو نہیں بیسیوں کتابیں درکار ہیں۔ محمد نعیم کی کتاب کو اس طرف اٹھنے والا ایک اور قدم سمجھنا چاہیے۔ امید ہے کہ وہ تاریخ، ثقافت اور ادب کے اس پُر ہیجان گنجان کو مزید پرکھیں اور ٹٹولیں گے۔

ایک دلچسپ بات رہی جاتی ہے۔ محمد نعیم لکھتے ہیں: ”انگریزی اور بادشاہی حکومت میں زیادہ فرق نہ تھا۔ دونوں طرح کے طرزِ حکومت سے ایک مخصوص طبقہ فائدہ اٹھا رہا تھا اور حکومتی عمل میں عوام کی شمولیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ ”اتفاق سے آج بھی یہی حال ہے۔ انگریزی راج اور بادشاہوں کی جگہ جمہوریت نے سنبھال رکھی ہے۔
اُردو ناول اور استعماریت از محمد نعیم
ناشر: کتاب محل، لاہور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).