خارجہ پالیسی اور ایدھی سنٹر میں دیگر لاوارث بچے


\"wajahat\"بہت سی خبریں ادھر ادھر سے آرہی ہیں۔ ہمارے ہر دل عزیز سرتاج عزیز نے ایک زبردست پریس کانفرنس کی، امریکہ کو کھری کھری سنا دی ہیں۔ کوئی دو روز قبل ہماری اعلیٰ ترین سیاسی قیادت نے جی ایچ کیو میں عسکری قیادت سے ملاقات کی تھی۔ مقام مسرت ہے کہ میز کے دونوں طرف اس دقیق نکتہ پر اتفاق پایا گیا کہ ڈرون حملے میں ملا اختر منصور کی ہلاکت پاکستان کی خود مختاری پر حملہ تھا۔ ایک خبر سینیٹ سے بھی آئی ہے۔ ہمارے محترم سیاسی رہنما رضا ربانی اور ان کے قابل صد احترام اراکین ایوان بالا کو تشویش ہو رہی ہے کہ پاکستان میں لڑکیوں کو زندہ جلانے کے واقعات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ لڑکیوں کو زندہ جلانا بہت بری بات ہے، اخلاقیات کا تقاضا یہی ہے کہ انہیں جان سے مارنے کے بعد جلایا جائے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ پنجاب کے محترم قائد شہباز شریف کی خصوصی ہدایات پر برادر طاہر سندھو ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر کے قتل ناحق پر تعزیت کرنے اٹک گئے ہیں۔ گرمی کے اس موسم میں طاہر سندھو کا کیمبل پور جانا بہت اہم خبر ہے۔ رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا ہے۔ رویت ہلال کمیٹی کے چیرمین محترم مفتی منیب الرحمٰن نے چاند کا اعلان کرنے کے علاوہ زکوٰة اور فطرانے کا نصاب بھی آنے پائی کی تفصیل کے ساتھ بتا دیا ہے۔ رمضان میں کیسے برکت کے دن ہوتے ہیں۔ ایک طرف ہمارے محترم رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کو تشویش ہے کہ ایم کیو ایم کو رمضان کے مبارک مہینے میں عطیات جمع کرنے میں رکاوٹ پیش آ رہی ہے اور دوسری طرف سوشل میڈیا پر کچھ پارسا اہل وطن عبد الستار ایدھی صاحب کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ شکوہ یہ ہے کہ لوگ آنکھیں بند کر کے ایسے فتنہ پرور انسان کو دل کھول کر عطیات دیتے ہیں جو مذہب، مسلک، زبان و نسل کا امتیاز تک نہیں جانتا اور خدمت خلق جیسی کالعدم سیاسی تنظیم کے نام پر انسانیت کی بات کئے جاتا ہے۔ اور صاحب سو گز کی رسی کے آخری سرے پر گرہ یہ ہے کہ ہندوستان کے وزیراعظم امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں، امریکہ کے منتخب نمائندوں نے ایک سو بیس کروڑ کی آبادی کے جمہوری رہنما کے لئے نیم دراز ہوکر تالیاں بجائیں۔ ہماری محترم رہنما شیری رحمٰن نے وجہ بھی بیان کی ہے۔ وہ کہتی ہیں، امریکہ میں ہمارے چار چار لابسٹ ہوتے تھے، اب ایک بھی نہیں ہے۔ یہ نہیں بتایا کہ امریکہ میں تو ہمارا سفیر سکیورٹی رسک بن جاتا ہے، لابسٹ غریب ایسی صورت میں کیا پہاڑ توڑ لیتے۔ فارسی کا شاعر کہتا ہے چہ می کنند، چہ می کنند۔ سید مودودی نے ایسی ہی صورت حال میں کہا تھا، میں ہن کی کراں؟

جیسا کہ ہم جانتے ہیں ہمارا ملک تہذیب اور انسانی احترام کی بہترین اقدار کا قابل تقلید نمونہ ہے، چنانچہ نوجوان لڑکیوں کا پے در پے زندہ جلائے جانا نہایت تشویش کا معاملہ ہے۔ یہ درست ہے کہ جلائے جانے والی بیشتر لڑکیاں نہایت غریب تھیں اور یہ نکتہ بھی وزن سے خالی نہیں کہ عورتوں کے تحفظ کا قانون سرد خانے میں ڈالے جانے کے بعد یہ واقعات یک بعد دیگرے پیش آرہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ فروری 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا سوال سیاسی منظر پر حاوی تھا۔ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نامی دو عورتیں آمریت کی مزاحمت میں پیش پیش تھیں۔ ہمارے محترم برادر دوست خلیجی ملک سے ایک ماہر قانون عالم معروف الدوابی پاکستان تشریف لائے۔ بنے بنائے قانون کا مسودہ علمائے حق کے سامنے رکھا، اور ہم نے حدود کے قوانین پر سرِ تسلیم خم کیا۔ اس سے ملک میں عورتوں کا مقام بہت بلند ہوگیا اور نیکی کی ہوا ہر طرف چلنے لگی۔ کچھ سوال البتہ فتنہ پرور لوگ اب بھی اٹھاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ شادی تو دو بالغ انسانوں کے باہم رضامندی سے اکٹھے زندگی گزارنے کا معاہدہ ہے۔ اخبار میں آئے روز سرخی جمائی جاتی ہے کہ پسند کی شادی کرنے پر لڑکی کو جان سے مار دیا۔ کیوں صاحب مرضی کی شادی جرم ہے تو اتنی بہت سی شادیاں جو دھوم دھڑکے سے کی جا رہی ہیں کیا ان میں پسند کو دخل نہیں ہے؟ کیا کہیں زبردستی کی شادی بھی ہو رہی ہے؟ زبردستی کا رضامندی کے معاہدے سے کیا تعلق؟ سوال تو پوچھنا چاہئے کہ لڑکی کس کی مرضی سے شادی کرے؟ باپ کی مرضی، بھائیوں کی مرضی ، باپ کے بھائیوں کی مرضی یا ماں کے گھرانے کی مرضی؟ ایک نکتہ یہ بھی اٹھایا جارہا ہے کہ شادی میں خاندان، قبیلے کی مرضی تو اپنی جگہ، اہل محلہ بھی ایک جائز فریق ہیں۔ کیا شادی کے اس بندھن میں بھینٹ چڑھنے والے بچوں کی خوشی بھی کوئی مقام رکھتی ہے؟ ایک نکتہ یہ بھی پیش کیا جارہا ہے کہ ملک کی آبادی 22.6 برس کی اوسط عمر رکھتی ہے۔ لاکھوں لڑکے اور لڑکیاں شادی کرنے کی عمر میں ہیں۔ یہ جو ہم نے پنج ستارہ ہوٹلوں میں شادی کی تقریب کا چلن اختیار کیا ہے، سیاسی اور عسکری صاحبان ذی وقار نے سنیما گھر گرا کر شادی ہال تعمیر کئے ہیں۔ یہ جو ہم پانچ لاکھ سے پندرہ لاکھ کا عروسی لباس بیچ رہے ہیں۔ کتنی بچیاں اور کتنے بچے اس اذیت میں مبتلا ہیں کہ کم از کم اجرت چودہ ہزار روپیہ ہے اور دلہن کا بھاری جوڑا چودہ لاکھ کا ہے۔ جماعت اسلامی والے بہن بھائیوں سے بہت اختلاف ہے، ایک چیز ان سے سیکھنی چاہئے، شادیوں میں سادگی اختیار کرنی چاہئے۔ اس سے معاشرے میں بہت سی تکلیف ختم ہوجائے گی۔ میں عمر کے اس حصہ میں ہوں جہاں کوئی دوست دنیا سے چلا جائے تو کچھ قبل از وقت موت کا احساس ضرور ہوتا ہے مگر یہ طے ہے کہ اگیتی کٹائی کے دن آ گئے ہیں۔ بہت سے دوست چلے گئے ہیں، جیسے ہی کوئی خاتون دوست رخصت ہوتی ہے پھول اٹھنے کے چند روز بعد سوگوار مرد کے اہل خانہ اور احباب سنجیدہ ڈھب سے تجویز کرتے ہیں کہ مرنے والی کے ساتھ کوئی دفن نہیں ہوتا، اب گھر بسانا چاہئے۔ چالیس برس کے پیٹے میں بہت سی جاننے والی عورتیں بیوہ ہوئیں، کسی نے پھوٹے منہ نہیں کہا کہ آپ بھی گھر بسا لیجئے۔ کیوں؟ اس لئے کہ بچے بڑے ہوگئے ہیں۔ محترم رنڈوے کے بچے بھی یونیورسٹی میں ہیں، وہاں ایسا سوال نہیں اٹھایا جاتا۔ معاشرہ شفاف ہے اور بیوہ کی شادی کی اجازت ہماری اقدار کا حصہ ہے۔

ایک بیوہ ہماری خارجہ پالیسی ہے۔ ان دنوں سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ہماری سفارت کاری ناکام ہوگئی ہے۔ پوچھ لینا چاہئے کہ اکتوبر 1988 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت منتخب ہوئی تو انہیں خارجہ پالیسی پر اختیار دینے سے انکار کس نے کیا تھا۔ خارجہ پالیسی کے نام ہی پر منتخب وزیراعظم سکیورٹی رسک قرار پاتے تھے۔ فارن آفس کو ہمارا صحافی فارنر آفس لکھتا تھا۔ پوچھ لینا چاہئے کہ گزشتہ چالیس برس میں خارجہ پالیسی کے خد و خال کون طے کرتا رہا؟ معاشی طور پر کمزور ملک کی سفارت کاری کیسے کی جاتی ہے؟ جس ملک میں شہریوں کے ساتھ انصاف نہ کیا جائے، اس کے سفارت کار قوموں میں انصاف کا بھاری پتھر کیسے اٹھائیں؟ اور پھر ایسا ملک جہاں آئے روز پیٹ پر سے کپڑا ہٹ جاتا ہے۔ ظفر ہلالی سے پوچھ لیجئے گا وہ سفارت کاری کے رموز بہتر سمجھتے ہیں۔ سفارت کاری دلیل گھڑنے کا نام نہیں، سفارت کار کی جیب میں بھی کچھ ڈالنا چاہئے۔ اسے کم از کم اتنی اخلاقی مدد ہی دے دی جائے جتنی ہم فلسطین کی پی ایل او، کشمیر کی جد و جہدِ حریت اور افغان مجاہدین کو دیتے رہے ہیں۔ سفارت کار ہوا میں چھڑی گھما کے جادو کے منظر پیدا نہیں کر سکتا۔ ہماری خارجہ پالیسی لاوارث بچہ ہوچکی ہے۔ اس معصوم بچے کو ایک دوسرے کے دروازے پر دھکیلنے کی بجائے بہتر ہے کہ اسے ایدھی سنٹر بھیج دیا جائے۔ عبدالستار ایدھی ایک بد عقیدہ شخص ہے جو گرے پڑے بچوں پر شفقت کا ہاتھ رکھتا ہے۔

یہ کالم 11جون 2016 کو روز نامہ جنگ میں شائع ہوا۔

http://jang.com.pk/print/117413-wajahat-masood-column-2016-06-11-kharja-policy-aor-edhi-center-men-deegar-lawaris-bachay


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments