جب شہباز شریف قید سے نکل کر ایوان میں پہنچے


شہباز شریف

PMLN

اپوزیشن کی درخواست پر بلوایا گیا قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو قائد حزب اختلاف شہباز شریف جنھیں قومی احتساب بیورو کے حکام لاہور سے اسلام آباد لے کر آئے تھے جب ایوان میں پہنچے تو حزب مخالف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے اراکین نے ڈیسک اور تالیاں بجا کر میاں شہباز شریف کا استقبال کیا۔

قومی اسمبلی کے سپیکر نے جب میاں شہباز شریف کو تقرریر کرنے کا موقع دیا تو اُنھوں نے اپنے الزامات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قومی احتساب بیورو اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے درمیان ’ناپاک اتحاد‘ ہے اور اُن کی گرفتاری وزیر اعظم عمران خان کی ایما پر کی گئی ہے۔

قائد حزب اختلاف نے ان سوالوں کو دھرایا جو نیب کی تفتیشی ٹیم نے اُن سے پوچھے تھے اور ان کے بقول یہ وہی سوالات تھے جو عمران خان نے انتخابی جلسوں میں کیے تھے۔

شہباز شریف کے اس بیان پر کہ نیب نے اُنھیں سابق وزیر خواجہ آصف کے خلاف وعدہ معاف بننے کے لیے دباو ڈالا تو حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے شیم شیم کے نعرے لگائے گئے۔

مزید پڑھیے

آشیانہ کیس: شہباز شریف جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

’کارکنوں کی گرفتاریاں قبل از انتخابات کھلی دھاندلی ہے‘

قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے جب قائد حزب اختلاف کو آدھے گھنٹے کے بعد تقریر ختم کرنے کے بارے میں کہا تو میاں شہباز شریف سپیکر سے چند منٹ میں تقریر ختم کرنے کا کہہ کر تقریر کرتے رہتے اس طرح اُنھوں نے ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ دیر تک تقریر کی۔

میاں شہباز شریف نے جب اپنی تقریر کے دوران سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائی میجر کامران کیانی کو دیے ٹھیکے کی منسوخی کا ذکر کیا تو اُنھوں نے دو تین مرتبہ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو میجر اشفاق پرویز کیانی کہہ کر بلایا۔ اب یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اُنھوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا یا پھر ان کی زبان پھسل گئی تاہم شہباز شریف کی تصیح کی گئی کہ ’سابق آرمی چیف میجر نہیں بلکہ جنرل تھے۔‘

حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے اپنی تقریر میں اس بات کی نشاندہی کی کہ موجودہ قائد حزب اختلاف کی گرفتاری سے نہ صرف جمہوریت اور پارلیمنٹ کی کمزوری قرار دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ سیاست دان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں کر رہے ہیں جس کی وجہ سے غیر جمہوری قوتیں اس کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرر ہی ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما کی طرف سے یہ بیان بھی سامنے آیا کہ جنھوں نے سنہ 1971 میں ملک کو دو لخت کیا ان کو کٹہرے میں آج تک نہیں لایا گیا۔

سابق قائد حزب اختلاف نے اپنی تقریر کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات اور حکومتی ترجمان فواد چوہدری کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ حیرت ہے کہ جو شخص ان کی جماعت یعنی پاکستان پیپلز پارٹی میں تھا تو اس کو اس جماعت میں تمام خوبیاں نظر آئیں لیکن جونہی اُنھیں چمک دکھائی دی تو وہ اس جماعت سے اڑان بھر کر پاکستان تحریک انصاف میں چلے گئے۔

سید خورشید شاہ جب فواد چوہدری پر تنقید کر رہے تھے تو وفاقی وزیر اطلاعات سر جھکا کر اپنی سیٹ پر بیٹھے رہے۔ اُنھوں نے قومی اسمبلی کے سپیکر کو مشورہ دیا کہ وہ ایسے عناصر سے محفوظ رہیں جو آج ایک جماعت میں ہیں اور چمک دیکھ کر دوسری جماعت میں چلے جاتے ہیں جس پر ایوان میں ایک زور دار قہقہ گونجا اور سپیکر سمیت حکومتی سیٹیوں پر بیٹھے ہوئے لوگ مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔

اس موقع پر سپیکر نے سید خورشید شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف میں تمام اچھے لوگ ہیں جس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ ضرور اچھے ہوں گے لیکن وہ پچھلی نشتوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اس وقت حکمراں جماعت میں 80 فیصد ایسے افراد موجود ہیں جو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے ساتھ رہے ہیں۔

ملک کی موجودہ اقتصادی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے سید خورشید شاہ انتہائی جذباتی ہو گئے۔

بلوچستان نینشل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اس بات پر زور دیا کہ احتساب صرف مالی بدعنوانی کا ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان لوگوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے جنہوں نے نہ صرف آئیں شکنی کی بلکہ بلوچستان میں ہونے والے قتل عام میں بھی ملوث ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے پاس ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے اور بجلی اور گیس کی قیمیتں پڑھانے اور آئی ایم ایف کے پاس جانے کے جواز کے بارے میں اُٹھائے گئے سوالوں کا جواب دینے کے لیے کوئی مواد موجود نہیں تھا اور اُنھوں نے مسلم لیگ نواز کو تنقید کا نشانہ بنا کر اپنی تقریر کا وقت ختم کیا۔

وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں پورا دن شریک نہیں ہوئے اور اس صورت حال میں جب وزیر اطلاعات تقریر کرر ہے تھے کہ اپوزیشن بینچوں کی طرف سے یہ جملے کسے جارہے تھے’ڈبو ابو کو بلاؤ‘ سپیکر قومی اسمبلی نے ان جملوں کو ایوان کی کارروائی سے ہذف نہیں کروایا۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp