سمبرملا مندر تنازع: مظاہرین نے خواتین کو مندر میں داخل ہونے روک دیا


مندر

مظاہرین نے ریلیاں نکالی، سڑکیں بلاک کیں اور مندر کی جانب جانے والی گاڑیوں کو چیک کی

انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ میں ہزاروں کی تعداد میں افراد ایک مقدس ترین مندر میں تمام عمر کی خواتین کو داخلے کی اجازت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

سبریملا مندر میں ’ماہواری آنے والی عمر‘ کی خواتین یعنی اندازاً دس سے 50 سال کی عمر کی خواتین کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی تاہم حال ہی میں سپریم کورٹ نے یہ پابندی ختم کر دی ہے۔

مظاہرین نے ان گاڑیوں پر حملے کیے جن میں خواتین صحافی سوار تھیں اور خواتین کو مندر میں داخل ہونے سے روکا۔

توقع کی جا رہی ہے مزید خواتین مندر میں داخل ہونے کی کوشش کریں گی جس سے حالات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں!

دوستی نے مندر اور مسجد کے طرزِ تعمیر کا فرق مٹا دیا

لکھنؤ کے مندر میں افطار کا اہتمام

‘یہ لوگ ہندو مذہب کو بدنام کر رہے ہیں‘

ہندو مذہب میں ایسی خاتون جو مخصوص ایام سے گزر رہی ہوں انھیں ناپاک سمجھا جاتا ہے اور وہ مذہبی رسوم میں حصہ نہیں لے سکتیں۔ سمبرملا مندر کے دروازے خواتین کے لیے بدھ کی شب مقامی وقت کے مطابق شام پانچ بجے کھولے جانے تھے۔

علاقے میں سکیورٹی فورسز تعینات ہیں اور انھوں نے بہت سے ہندو گروپوں کو مندر میں خواتین کا داخلہ روکنے سے روکا ہے۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کی بھی اطلاع ہے تاہم کوئی زخمی نہیں ہوا۔

مظاہرین میں خواتین بھی شامل ہیں جنھوں نے ریلیاں نکالی، سڑکیں بلاک کیں اور مندر کی جانب جانے والی گاڑیوں کو چیک کیا کہ کیا ان میں دس سے 50 سال کی خواتین تو سوار نہیں ہیں۔

احتجاج

مظاہرین میں خواتین بھی شامل ہیں

ہر سال لاکھوں کی تعداد میں مرد یاتری ایک عمودی پہاڑی کی چڑھائی چڑھ کر یہ یاترا کرتے ہیں، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ 800 سال قدیم ہے۔ اس یاترا کے آغاز سے قبل وہ 41 دن کا سخت روزہ رکھتے ہیں۔

اگرچہ بیشتر ہندو مندروں میں ماہواری کے دنوں کے علاوہ سب خواتین کو داخلے کی اجازت ہوتی ہے لیکن سبریملا مندر میں ان چند مندروں میں سے ایک ہے جہاں دس سے 50 سال کی عمر کی خواتین کو داخلے کی اجازت نہیں۔

اس مندر میں خواتین کے داخلے کی مہم نے سنہ 2016 میں زور پکڑا تھا جب طالبات نے احتجاج کیا تھا۔ یہ احتجاج اس وقت شروع ہوا تھا جب سبریملا مندر کے نگران نے یہ بیان دیا تھا کہ خواتین کو صرف اس وقت داخلے کی اجازت ملے گی جب ‘پاکیزگی ‘ کو جانچنے والی مشین ایجاد نہیں ہوجاتی۔ یعنی وہ ماہواری سے نہیں گزر رہیں۔

مندر

اس پابندی کے حامیوں کا کہنا تھا کہ یہ رسم صدیوں سے چلی آرہی ہے

اس مہم کو شروع کرنے والی نکتا آزاد نے بی بی سی کو اس وقت بتایا تھا کہ مندر میں جانے کا کوئی ‘صحیح وقت’ نہیں ہوتا اور خواتین جب بھی ‘کہیں بھی جانے اور جب بھی کہیں جانا چاہتی ہیں’ انھیں اس کا حق ہونا چاہیے۔

اس پابندی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے والوں کا کہنا تھا کہ یہ رسم انڈیا کے آئین کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ خواتین اور کے عبادت کے حق کے ساتھ تعصب۔

اس پابندی کے حامیوں کا کہنا تھا کہ یہ رسم صدیوں سے چلی آرہی ہے اور اسے اب تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں۔

تاہم سپریم کورٹ نے 28 ستمبر کو اس پابندی کو ‘غیرآئنی’ قرار دیتے ہوئے اسے ختم کر دیا۔ جس کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

انڈیا میں یہ تیسرا مذہبی مقام ہے جہاں عدالتی حکم پر خواتین کو داخلے کی اجازت ملی ہے۔ اس سے قبل عدالتیں مہاراشٹر میں ہندو مندر شانی شنگاپور اور مسلمانوں کی درگاہ حاجی علی میں خواتین کو داخل ہونے کی اجازت دے چکی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp