تحریم عظیم کے بلاگ”ملتان کا طوائف مرد“ پر میرا جواب


پچھلے دنوں ایک تحریر نظروں سے گزری، اکثر ہی ایسی تحاریر گزرا کرتی تھیں مگر یہ خاص تھی کیونکہ یہ تحریم عظیم کی تھی اور مقبول ترین تھی۔ سو پڑھنا واجب تھا اور پڑھ کر اس پر معترض ہونا ڈبل واجب۔

پڑھ کر چودہ طبق روشن ہو گئے۔ خاتون نے بےحیائی کی ایک داستان لکھ ڈالی تھی۔ یعنی کسی مرد و زن نے بےحیائی کا ارتکاب کیا اور انھوں نے وہ ہم تک پہنچا دیا۔ بےحیائی کرنے والوں کا حساب رب جانے، بےحیائی کی نشاندہی کرنا توبہ توبہ۔

جنہوں نے ایسا کیا، ان کی خیر ہے، یہ تو چلتا ہے، یوٹیوب بھرا ہوا ہے، وہاں سے بندہ باتصویر اور باآواز ایسی کہانیاں سن سکتا ہے۔ ایسے میں ایک خاتون نے معاشرے میں پھیلی ایک وبا کی نشاندہی کی تو یہ جرم ناقابل معافی ہے۔ اگر انھیں کچھ ہیجان انگیز ہی لکھنا تھا تو کم ازکم کوئی سین تو ڈالتیں۔ کچھ گہرائی میں جاتیں، اس میں ذرا مسالہ ہوتا، اس میں جذبات کی عکاسی ہوتی، ذرا منظر نگاری ہوتی، کچھ ڈائیلاگ ہوتے۔ وہ سب مفقود تھا، بس ایک واقعہ اٹھا کر سر پر دے مارا۔ مزا بھی نہ آیا جو ٹائیٹل سے ذہنی طور پر کشید کیا تھا۔

بالکل بے مقصد، کم ازکم گلیمر شامل ہوتا تو پڑھنے کی محنت وصول ہو جاتی۔

سلونی چوپڑا نے کیا خوب منظر نگاری کی تھی ساجد خان کی خباثت کی۔ کچھ ایسا ہی ہو جاتا۔

بندہ ان کو سمجھائے کہ بی بی آپ نے کان بند کر لینے تھے۔ آنکھیں بند کر لینی تھیں۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ کوئی عورت کسی سٹوڈنٹ بچے کو بہلا پھسلا لے اور آپ اس گناہ کی تشہیر کر دیں۔

بجائے اس بات کو سمجھنے کہ ہمارے بچے دوسرے شہروں کے ہاسٹلوں میں پڑھنے جاتے ہیں اور ایسی علتوں میں دھنس جاتے ہیں، اس بات پر معترض ہو جانے میں حق بجانب ہیں کہ لو بھئی جسے نہیں معلوم اسے بھی آئیڈیا ہو گیا۔ ہم تو کاکے ہیں اور ہمیں تو تحریم کی زبانی ہی معلوم ہوا کہ کہاں کہاں کس کس سے تعلق استوار ہو رہا ہے۔

ہم تو کزنوں، سٹوڈنٹ، ٹیچر، پڑوسی، سالی، بھابھی، کولیگ، رشتہ دار سبھی کو ماں بہن کا درجہ دیتے ہیں، یہ پتا نہیں کس معاشرے کی کہانی لکھ ڈالی۔ ہمیں تو اب پتا چلا کہ یہ راستہ بھی موجود ہے پیسہ کمانے کا اور مالدار لڑکی سے شادی کر کے جہیز بٹورنا تو ڈراموں میں ہوا کرتا ہے۔

بی بی سی کئی ایسے لوگوں کی کہانیاں شائع کرتا رہتا ہے جو نارمل سے ہٹ کر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں تحریم کو کیا حق کہ وہ بھی کسی ایسے بندے کی کہانی شائع کروا دے جو تعلیم حاصل کرنے گیا اور زندگی برباد کر بیٹھا۔ اس کہانی سے ہمیں کیا ملا؟

ہمیں کیا ضرورت ہے سبق حاصل کرنے کی کہ ہم اپنے بچوں کی نگرانی کریں۔ ان کو مالی دشواریاں ہیں یا ان کے پاس کہاں سے کتنا پیسہ آ رہا ہے؟ بچوں کے پڑھائی کے علاوہ کون کون سے اخراجات ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

کل کلاں کو ایسے بلاگ کوئی بچی بھی پڑھ لے تو کتنی بری بات ہے، اسے معلوم ہو جائے گا کہ معاشرے میں کیسے کیسے گھناؤنے کردار موجود ہیں۔ وہ بےخوف وخطر ٹیوشن والے سر سے پڑ ھ لیا کرتی تھی۔ اگر وہ کبھی کہیں ہاتھ لگا بھی دیا کرتے تھے تو خیر ہے کیا ہوا، وہ ان کی شفقت تھی۔ ایسے بلاگز سے تو وہ سمجھنے لگ جائے گی کہ سر کا ہاتھ اگر کمر سے نیچے یاکندھوں سے نیچے جائے یا وہ شاباشی دینے میں حد سے تجاوز کر جائیں یا کوئی انتہائی ذاتی سوال پوچھ لیں تو یہ ان کی محبت نہیں ہے۔ ایسے بلاگز سے بچیوں کا دماغ خراب ہوتا ہے، شفقت کو ہراسانی تصور کرنے لگتی ہیں۔

اچھے گھروں کی بچیوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ ایسے پوشیدہ معاملات میں دخل اندازی کریں۔ ان کا تو کام ہے کہ کوئی چھیڑ لے تو صبر کریں، کوئی ہاتھ پکڑ لے تو کپکپا لیں، کوئی ہراساں کرے تو چپ رہیں اور خدانخواستہ کوئی زیادتی کر دے تو رو کر دل ہلکا کر لیں اور بات دبا لیں۔ بےآبرو ہونا بدنام ہونے سے تو کہیں درجے بہتر ہے۔

تحریم جیسی خواتین اور ان کے بلاگز سے یہ ہو گا کہ لڑکے فحش اور لڑکیاں باغی ہو جائیں گی۔ کوئی چھیڑے گا تو اس کی خلاف آواز اٹھائیں گی، کوئی بدتمیزی کرے گا تو اس کو منہ توڑ جواب دیں گی۔ اگر ماضی میں کسی نے ان سے بدتمیزی کی ہو گی تو اس کا اعلان کر کے خاندان کا نام ڈبو دیں گے اور کئی شریفوں کو ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھلاشریف بچیاں لڑائی بھڑائی کرتی اچھی لگتی ہیں؟

بندہ کیسے سمجھائے کہ رات گئی بات گئی۔ ماضی میں اگر کسی بندے سے کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو کیا مضائقہ، ہو سکتا ہے اب توبہ تائب ہو گیا ہو۔

کچھ کو یہ بھی گلہ ہو گا کہ اچھا بھلا ہمارے گھر میں ایسا ہی ایک سٹوڈنٹ پڑھانے آتا تھا جس کی شرافت پر ہمیں ابھی تک تو کوئی شک نہیں تھا، تحریم کی بدولت ہی ہم بلاوجہ شک اور خوف میں مبتلا ہو گئے۔

آج ہی معلوم ہوا عمران بھی کسی ایسی ہی سنگت یعنی بڑی رشتہ دار خواتین میں پڑا تھا اور سیکس ایڈکٹ بن گیا، بعد میں بچوں پر حملے شروع کر دیئے ہوں۔ تحریم کے بلاگ والے بندے میں عمران بننے کے تمام آثار تھے، یعنی بلاوجہ کا خوف ہراس پھیلانے کی سازش کی ہے اور اس میں کسی بیرونی آزادی نسواں والی تنظیم کا ہاتھ ہو گا۔

خاتون نے تو عورت دشمنی کی بھی مثال قائم کر دی۔ یہ بھی عیاں کر دیا کہ میاں بیوی جو بظاہر نارمل ازدواجی تعلقات رکھتے ہوں، ان کے درمیان بھی کمیونیکشن گیپ ہو سکتا ہے۔ عورت جب شوہر سے ذہنی طور پر مطمئن نہ ہواور اس کی جنسی ترجیہات شوہر سے میل نہ کھاتی ہوں تو وہ باہر منہ مار لے، شوہر سے اس درجے کی دوستی نہ ہونا تو عین فطری ہے، وہ حاکم جو ٹھہرا۔ یہ ہمارے معاشرے کی عورت پر تہمت ہے، ہماری عورت تو اتنی پاک صاف ہے کہ اس کی جنسی ضروریات ہیں ہی نہیں۔ وہ تو شوہر کی خواہش ہوتی ہے تو وہ انکار نہیں کرتی ورنہ ایسی نجس خواہشات۔۔ توبہ۔

ان مردوں کا کیا ہوگا جو اپنی بیویوں کی ضرورتوں سے پہلے لاتعلق تھے اور یہ پڑھنے کے بعد فکر لاحق ہو گی کہ مجھے بیوی سے بات کرنی چاہیے کہ وہ مجھ سے خوش بھی ہے یا نہیں۔ یہ سیدھا سیدھا عورت کو سر چڑھانے والی بات ہے۔ اب کیا عورت بتائے گی کہ معاملات کیسےچلنے چاہیئں؟

ہم میں سے اکثر صرف مردوں سے خائف تھے، تحریم کی بدولت عورتوں سے بھی ڈرنے لگے ہیں کہ استحصال تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔ یہ عورت دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟

قصہ مختصر، معاشرے میں جو جو برائی ہو اس کوچھپانا چاہیے تاکہ ملک و قوم کا وقار متاثر نہ ہو۔ خاندانی نظام کی تذلیل نہ ہو۔ کوئی بچہ قتل ہو جائے تو خیر ہے اکا دکا تو امریکہ میں بھی ہو ہی جاتے ہیں۔ کیا ہو گا زیادہ سے زیادہ، بچہ بگڑ کر عمران بن جائے گا، دو چار زینب شکار ہوں گی، کبھی نہ کبھی تو پکڑا ہی جائے گا، تب ہم سرعام پھانسی لگانے کی فرمائش کر دیں گے۔

مگر برائی کی نشاندہی کر کے ہم مغربی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں، انشااللہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).