جمال خاشقجی کے ’قتل‘ کا علاقائی سیاست پر اثر


جمال خشوگی

سعودی صحافی جمال خاشقجی کو ترکی میں سعودی قونصلیٹ سے ‘غائب’ ہوئے پندرہ دن سے زیادہ ہو گئے ہیں اور اس عرصے میں امریکہ، ترکی اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تبادلوں اور بیانات میں پراسرار گمشدگی کا معاملہ تیل، خطے کی سیاست اور ایران پر اقتصادی پابندیوں جیسے اہم بین الاقوامی امور میں کہیں گم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

سعودی عرب کے جوان سال ولی عہد اس سارے معاملے میں مرکزی کردار کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سلطنت کے تمام معاملات ان ہی کے گرد گھومتے ہیں اور وہ نہ صرف ملک کی معاشی ترقی بلکہ سماجی سطح پر بھی انقلابی اصلاحات اور تبدیلیاں لانا چاہ رہے ہیں۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے بارے میں یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ان کے اپنے ہم عمر صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر سے قریبی روابط ہیں۔ بہ بات بھی عالمی ذرائع ابلاغ میں کئی بار شائع ہو چکی ہے کہ جارڈ کشنر مسئلہ فلسطین کے جس ‘تاریخی’ حل پر کام کر رہے ہیں اس میں انھیں سعودی ولی عہد کی پوری حمایت حاصل ہے۔

اسی بارے میں

لاپتہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کون ہیں؟

کیا جمال خاشقجی کی ایپل واچ نے سب ریکارڈ کیا؟

سعودی عرب کے فرما روا شاہ سلمان نے جون سنہ دو ہزار سترہ میں محمد بن نائف کی جگہ اپنے سب سے بڑے بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہد نامزد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد سے سعودی عرب کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں میں جارحانہ عنصر حاوی نظر آنے لگا۔ امورِ سلطنت ولی عہد محمد بن سلمان کے ہاتھ میں جانے کے بعد سے سعودی عرب کی طرف سے امریکہ میں لابنگ پر خرچ کی جانے والی رقم کو دگنا کر دیا گیا۔

اس دوران سعودی عرب کی طرف سے کئی ایک انتہائی جارحانہ اقدامات بھی سامنے آئے جن میں لبنان کے وزیر اعظم سعد الحریری کو یرغمال بنانے کے علاوہ یمن میں سکول بس پر امریکی بم کے استعمال سے بیس سے زیادہ بچوں کی ہلاکت کے علاوہ سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے کے لیے مہم چلانے والی خاتون اور اس کے شوہر کی گرفتاری کے واقعات شامل تھے۔ سعودی عرب کو بین الاقوامی سطح پر ان تمام اقدامات کے باوجود کسی پریشانی کا کوئی سامنا نہیں کرنا پڑا۔

لیکن دو اکتوبر کو جمال خاشقجی کے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں غائب ہوجانے کے بعد سے ایک ایسا بحران کھڑا ہو گیا ہے جس کی وجہ سعودی عرب سے زیادہ ٹرمپ انتظامیہ میں تشویش پائی جاتی ہے۔

رپبلکن پارٹی کے سینیٹر لنڈسے گراہم نے گذشتہ روز ایک ٹی وی انٹرویو میں تو جاشقجی کی گمشدگی کا براہ راست ذمہ دار سعودی ولی عہد کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں ان کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔

امریکی اخبارات واشگنٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے حوالے سے پہلے ہی اس گمشدگی کو قتل قرار دے چکے ہیں۔

صدر ٹرمپ کی طرف سے اس معاملے پر ابتدائی طور پر شدید رد عمل کے بعد نرمی کا رویہ اپنانے پر نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں امریکہ میں نصف مدتی انتخابات اور ایران کے تیل کے فروخت پر پابندیوں کے معاملات انتہائی اہم ہیں۔

ایک ایسے موقعے پر جب سعودی عرب اپنے ہی ملک کے ایک صحافی کے مبینہ قتل کے الزامات میں الجھا ہوا ہو تو امریکہ کا یہ بیانیہ بڑی حد تک کمزور پڑ جائے گا کہ اس خطے میں تمام برائیوں کی جڑ ایران ہے اور اس کا ناطقہ بند کیا جانا چاہیے۔

اس کے علاوہ رپبلکن پارٹی میں جمال خاشقجی کے معاملے پر تقسیم صدر ٹرمپ کے لیے نصف مدتی انتخابات میں سیاسی مشکلات کا سبب بن سکتی ہیں۔ اس سارے قضیے کا ایک پہلو صدر ٹرمپ اور سعودی عرب کے شاہی خاندان کے کاروباری تعلقات پر قیاس آرائیاں بھی ہیں جو ذرائع ابلاغ کی زینت بھی بن چکی ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ اب روس کے علاوہ سعودی عرب سے بھی اپنے کاروباری تعلقات کی خبروں کی تردید کرتے ہیں۔

مشرقی وسطی کے امور پر دسترس رکھنے والے صحافیوں اور ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکہ اور ترکی سعودی عرب کے ساتھ دیگر امور طے کرنا چاہتے ہیں۔ اور ان دیگر امور میں ٹرمپ انتظامیہ کے لیے سب سے اہم معاملہ ایران کی تیل کی برآمدات پر پابندی عائد کرنا ہے اور سعودی عرب کو اس سے پیدا ہونے والی کمی کو عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کو بڑھائے بغیر پورا کرنے پر آمادہ رکھنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp