پاکستانی بلے بازوں کے پانچ ’احمقانہ‘ رن آؤٹ


اظہر علی

اظہر علی ابوظہبی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں انتہائی غیر ذمہ داری سے رن آؤٹ ہوئے

پاکستان کی کرکٹ ٹیم میچ کھیل رہی تو اچانک بیٹنگ لائن کا لڑکھڑا جانا اور اہم موقعوں پر قیمتی کیچ چھوڑنا ممعول کی بات لگتی ہے لیکن پاکستانی بلے بازوں کبھی کبھار ایسے ایسے ’کارنامے‘ سرانجام دیتے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی کہ اس پر ہنسا جائے یا رویا جائے۔

ایسا ہی جمعرات کو ابوظہبی ٹیسٹ کے تیسرے دن ہوا جب پاکستانی بلے باز اظہر علی پراعتماد میں بیٹنگ کر رہے تھے اور ان کے ساتھ اسد شفیق کریز پر موجود تھے۔

اظہر علی 64 رنز بنا چکے تھے اور آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کی پوزیشن مستحکم ہو چکی تھی جس کی وجہ سے بلے بازوں پر ظاہر ہے کہ زیادہ دباؤ نہیں تھا اور اگر دباؤ نہ ہو تو بلے بازوں میں اعتماد تو آ ہی جاتا ہے۔

پراعتماد ہونا اچھی بات ہوتی ہے لیکن یہ ایک حد سے بڑھے تو مسئلہ ہو سکتا ہے اور ایسا ہی شاید اظہر علی کے ساتھ ہوا جنھوں نے پیٹر سڈل کی گیند پر تھرڈ مین کی جانب شاٹ کھیلی اور وہاں چونکہ کوئی فیلڈر بھی نہیں تھا تو چوکا یقینی تھا۔

کہتے ہیں کہ آنکھوں دیکھے پر ہی یقین کرنا چاہیے لیکن شاید اظہر علی نے اس کے بارے میں سنا نہیں تھا اور’چوکا‘ لگانے کے بعد آرام سے کریز سے نکل کر چند قدم چلے اور دوسرے اینڈ سے اسد شفیق پر آرام آرام سے چلتے ہوئے ان کے پاس پہنچے اور دونوں کے درمیان گپ شپ شروع ہو گئی۔

اسی گپ شپ کے ماحول میں آسٹریلیوی کھلاڑی مچل سٹارک بھی نیم دلی سے گیند کے پیچھے بھاگے لیکن گیند نے باؤنڈری لائن سے تھوڑا پیچھے ہی آرام کرنے کا فیصلہ کیا یعنی رک گئی۔

اب مچل سٹارک نے گیند کو وکٹ کیپر کی جانب پھینکا جنھیں پہلے ہی حقیقت کا اندازہ ہو چکا تھا تو انھوں نے آرام سے بیلز کو اڑا دیا اور وکٹ کی جشن شروع ہو گیا۔

دوسری جانب اظہر علی اور اسد شفیق کو مخالف ٹیم کی خوشی نے متوجہ کیا تو پہلے تو اس کو سمجھنے کی کوشش کی کہ خوشی کس بات کی اور جب حیرت کے عالم میں سمجھ آیا تو یہ محاورہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘۔

ایسے لاپرواہی کہا جائے، غائب دماغی کہا جائے یا کچھ اور لیکن اظہر علی کو زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ماضی میں ان کے سینیئر پلیئرز بھی اس سے ملتے جلتے معرکے سرانجام دے چکے ہیں۔

ہارمیسن کا غصہ اور انضمام کی چھلانگ

انضمام الحق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی ٹیم میں سب سے زیادہ بار رن آؤٹ ہونے والے کھلاڑی ہیں۔ ان کے کئی بار لاپرواہی سے رن آونے کے واقعات میں سے ایک نومبر 2005 میں فیصل آباد میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ کے دوسرے دن پیش آیا۔

انضمام 109 پر اعتماد سے کھیل رہے تھے اور شارٹ کھیلی جو واپس بولر سٹیو ہرمیسن کے ہاتھ میں گئی جو پہلے ہی کسی بات پر غصے میں تھے اور انھوں نے گیند ہاتھ میں آتے ہی وکٹوں کی طرف دے ماری تو انضمام نے خود کو بچانے کے لیے ایک تو وکٹ کھلی چھوڑ دی اور دوسرا کریز کے باہر کھڑے تھے۔

گیند سیدھی وکٹوں پر جا لر لگی اور رن آؤٹ ہونے کے بعد حیرت اور غصے کے ملے جلے جذبات کے ساتھ واپس پویلین لوٹ گئے۔

انضمام جیسی حرکت مگر وکٹ کے دوسرے اینڈ پر سابق پاکستانی کپتان مصباح الحق نے بھی کی تھی جو انڈیا کے خلاف سیریز میں جب نو کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے تو وکٹوں کی جانب آتی گیند سے بچنے کے لیے ہوا میں اچھلے اور رن آؤٹ ہو گئے۔

عمر امین کی چہل قدمی

خیر انضمام الحق کا قصور تو خود کو بچانا تھا کیونکہ ’جان ہے تو جہان‘ لیکن 2010 کے ایشیا کپ میں پاکستانی بلے بام عمر امین نے اظہر علی سے ملتی جلتی حرکت کہ جب انھوں نے محمود اللہ کی گیند پر شارٹ کھیلی اور آرام سے رن لیا لیکن کریز کے بالکل پاس بھی چلے گئے لیکن اندر بیٹ نہیں رکھا۔

گیند محمود اللہ کے ہاتھ میں آتی ہے تو اس دوران وہ وکٹوں کے سامنے سے دائیں سے بائیں چلنا شروع ہو جاتے ہیں تاکہ بولر راؤنڈ دا وکٹ گیند کرا سکے لیکن بولر کو اندازہ ہو چکا تھا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے اور انھوں نے انتہائی پرسکون رہتے ہوئے خاموشی سے بیلز کو اڑا دیا اور ساتھ میں رن آؤٹ کی اپیل کر دی۔

اس میں مزے کی بات یے ہے کہ امپائر کو بھی صورتحال کا اندازہ نہیں تھا اور وہ بھی اپنے دھیان میں تھے اور ان کی کمر بولر کی جانب تھی۔

اپیل پر ریویو لیا گیا تو عمر امین رن آؤٹ قرار دیے گئے اور اس وقت کمنٹری رمیز راجہ کر رہے تھے جو عمر امین کی بیٹنگ کی تعریف کر رہے تھے لیکن جب وہ پویلین کی جانب جا رہے تھے تو تعریفی الفاظ کی جگہ۔۔۔ آپ سمجھ تو گئے ہوں گے۔

محمد عامر کا وہ چھکا جو ہوتے ہوتے رہ گیا

اسی طرح سے شارجہ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ میچ میں 192 پر سات کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے اور محمد عامر بیٹنگ کر رہے تھے۔

بشو کی گیند پر ’چھکا‘ لگایا تو گیند کو باؤنڈری کی اوپر جاتے دیکھ کی اطمینان سے کھڑے ہو گئے لیکن اس سے بھی زیادہ مطمئن دوسرے اینڈ پر کھڑے وہاب ریاض دکھائی دے اور وہ گیند کو باؤنڈی کی جانب جاتا دیکھ کی آرام سے وکٹ پر چہل قدمی کرتے ہوئے عامر کی جانب بڑھے۔

انھیں دیکھ کر عامر بھی کریز سے باہر نکلے تاکہ گپ شپ کی جا سکے لیکن دونوں باؤنڈی پر کھڑے فیلڈر کی عمدہ فیلنڈنگ کو نہیں دیکھ سکے جنھوں نے ہوا میں اچھلتے ہوئے گیند کو روکا اور پھر تھرو پھینکا اور تو دونوں کو اندازہ ہوا کہ مشکل میں پھنس چکے ہیں۔

پھر کیا تھا جس کا جس طرف منہ تھا اس طرف بھاگا اور عامر بولر اینڈ کی جانب بھاگے لیکن اس کے کریز کے اندر پہنچنے سے پہلے ہی گیند وکٹوں سے ٹکرا چکی تھی اور میچ بھی پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔

دونوں بلے باز ایک اینڈ پر

رن لینے کے دوران غلط فہمی پاکستانی بیٹنگ لائن میں کوئی نئئ چیز نہیں ہے۔ امارات میں انگلینڈ کے خلاف ایک روزہ میچوں کی سیریز کے ایک میچ میں جب پاکستان کی 74 رنز پر چار وکٹیں گر چکی تھی تو عمر اکمل نے شارٹ کھیلتے ہوئے پرخطر ایک رن لینے کا فیصلہ کیا۔

دوسرے اینڈ سے مقصود نے بھی دوڑنا شروع کر دیا لیکن عین کریز کے وسط میں جا کر انھیں پتہ نہیں کیا خیال آیا واپس بولر اینڈ کی جانب دوڑنا شروع کر دیا تو ایک وقت میں دونوں ساتھ ساتھ بولر اینڈ کی جانب بھاگ رہے تھے جس میں عمر اکمل پیچھے رہ گئے اور پویلین لوٹ گئے جبکہ کمنٹری بوکس سے کہا جاتا تھا۔ ’ پاکستان کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔‘

چلیں پاکستان کے بارے میں کافی بات ہو گئی تو اس کے ہمسایہ ملک اور روایتی حریف انڈیا کی ٹیم میں ایسے دلچسپ واقعات پیش آ چکے ہیں۔

چند برس پہلے سری لنکا کے خلاف ایک روزہ میچ میں سہواگ نے شارٹ کھیلی اور رن لیا لیکن کریز کے اندر نہیں گئے اور نہ ہی بیٹ رکھا بلکہ اطمئنان سے دوسری جانب دیکھنے لگے اور اسی دوران گیند جب وکٹوں سے ٹکرائی تو متوجہ ہوئے لیکن اس وقت دیر ہو چکی تھی اور سہواگ حیرت میں گم واپس پویلین جا رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp