نیب پر شہباز شریف کے الزامات


اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو اسپیکر قومی اسمبلی کے حکم پر آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے لاہور سے اسلام آباد لایا گیا جہاں انہوں نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نیب اور حکومت پر سنگین الزامات عائد کئے ہیں۔ شہباز شریف کو آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل میں 5 اکتوبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ احتساب عدالت نے گزشتہ روز شہباز شریف کے دس روزہ ریمانڈ میں مزید پندرہ دن کی توسیع کردی تھی۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار کسی اپوزیشن لیڈر کو کرپشن کے الزامات میں گرفتار کرکے اس کا ریمانڈ لیا گیا ہے۔ اس معاملہ میں شہباز شریف کی گرفتاری پر اس لئے بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں کیوں کہ اس منصوبہ کو پرائیویٹ سرمایہ سے مکمل ہونا تھا اور پنجاب حکومت کے وسائل اس میں ملوث نہیں تھے۔ چونکہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا، اس لئے بھی سرکاری وسائل کے غلط استعمال کا الزام بے بنیاد کہا جارہا ہے۔ نیب کے پاس اگرچہ شبہ میں کسی کو بھی گرفتار کرنے کا اختیار ہے لیکن شہباز شریف کو باقاعدہ ریفرنس دائر کرنے سے پہلے ہی گرفتار کیا گیا ہے۔ معاملہ ابھی تحقیقات کے مرحلہ میں ہے اور نیب کے پاس الزام ثابت کرنے کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں۔

شہباز شریف نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اپنی گرفتاری اور شریف خاندان کے خلاف نیب کی سرگرمی کو ’نیب اور تحریک انصاف کا ناپاک گٹھ جوڑ ‘ قرار دیا ہے۔ تحریک انصاف اور حکومت ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے ایک بار پھر یہ واضح کیا کہ حکومت کا نیب کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اسی سانس میں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ قوم کی دولت لوٹنے والوں کو چھوڑا نہیں جائے گا۔ اس قسم کے سیاسی نعروں سے لبریز بیانات کی وجہ سے بد گمانی پیدا ہونا اور ساز باز کا گمان ہونا فطری ہوتا ہے۔ اگر حکومت کا نیب کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ ادارہ اپنی صوابدید کے مطابق فیصلے کرنے میں خود مختار ہے تو حکومت کے نمائیندے نیب کے اقدامات کا دفاع کرنے کے لئے کیوں بےچین رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اگر احتساب کا کام نیب کی ذمہ داری ہے تو وزیر اطلاعات نیب پر اٹھنے والی انگلی کے جواب میں کیوں تلملاتے ہیں اور انتخابی نعروں کو دہراتے ہوئے عوام کو لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور ماضی کے بدعنوان حکمرانوں کو سزائیں دلوانے کا اعلان کرنا کیوں ضروری سمجھتے ہیں۔

اس رویہ کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کو معاشی بدحالی، تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے جن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے ، نئی نویلی حکومت کے پاس اس صورت حال سے پیدا ہونے والے سوالوں کا جواب نہیں۔ جس کی وجہ سے وزیر اعظم سمیت حکومت کے تمام ارکان بدعنوانی اور احتساب کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنے ووٹروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حکومت کو البتہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے نعرے لگانے اور نام نہاد بدعنوان سابقہ حکمرانوں کو قید کرنے سے تحریک انصاف سیاسی پوائینٹ اسکورنگ تو کرسکتی ہے لیکن ان اقدامات سے ملکی معیشت کو بہتر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی حکومت کی سیاسی مشکلات کم ہو سکتی ہیں۔ اس صورت میں اگر وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کو مشتعل کرنا بھی ضروری سمجھے گی تو اس سے معاملات پرگرفت مضبوط ہونے کی بجائے مسائل اور بحران میں اضافہ ہوگا۔

قومی احتساب بیورو جسے عرف عام میں نیب کہا جاتا ہے کا ماضی داغدار ہے۔ سپریم کورٹ بھی وقتاً فوقتاً نیب کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھاتی رہتی ہے لیکن ہر دور میں اس ادارے نے جس طرح حکمرانوں کی پسندیدگی کے مطابق ترجیحات کو ترتیب دیا ہے، اس کی تاریخ بھی اس کے کردار کو داغدار اور ناقص قرار دینے کے لئے کافی ہونی چاہئے۔ پاناما انکشافات کے بعد سپریم کورٹ نے نواز شریف کو وزارت عظمی سے معزول کرنے کے بعد اپنی نگرانی میں ان کے خلاف مقدمات چلانے کا حکم دیا تھا۔ تاہم نیب عدالت نے ایون فیلڈ کیس میں نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف جو فیصلہ دیا ان میں یہ تسلیم کیا گیا کہ نواز شریف پر سرکاری وسائل میں خرد برد کا کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب عدالت کے فیصلہ کو ناقص قرار دیتے ہوئے نواز شریف کو رہا کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔ نیب نے اس عدالتی فیصلہ کو چیلنج کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی کہ نواز شریف پر بدعنوانی کا الزام ثابت نہیں کیا جا سکا۔حالانکہ نیب کا بنیادی کام سرکاری وسائل میں خرد برد کی روک تھام کرنا ہے۔ اگر بدعنوانی کا الزام ثابت نہیں ہو تا یا نیب کو اس میں دلچسپی نہیں ہے بلکہ اس کا بنیادی مقصد کسی ایک خاص لیڈر یاخاندان کو ہراساں کرنا اور انہیں قید کروانا ہے تو یہ ادارہ اپنے بنیادی مقصد کی تکمیل میں ہی ناکام ہو رہا ہے۔ اس بنیاد پر بھی قومی اسمبلی کو نیب کے کردار ، طریقہ کار اور مستقبل میں اس کی ساخت کے حوالے سے بنیادی نوعیت کے فیصلہ کرنا ہوں گے۔

آج قومی اسمبلی میں شہباز شریف نے نیب کے طریقہ کار اور تفتیشی ہتھکنڈوں کے بارے میں سنسی خیز الزامات عائد کئے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ان کی گرفتاری کا حکم نیب کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے جولائی میں ہی دے دیا تھا اور انہیں خاص طور سے ضمنی انتخابات سے پہلے گرفتار کرکے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیب کے تفتیش کار انہیں خواجہ آصف اور مختلف لوگوں کے خلاف سرکاری گواہ بن کر گلو خلاصی کروانے کی پیش کش کرتے رہے ہیں۔ شہباز شریف نے الزام لگایا کہ اسی طرح ان کے اور ان کے خاندان کے دیگر لوگوں کے خلاف مقدمے بنانے کے لئے بھی مختلف لوگوں کو جھوٹے بیان دینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ان کی اس بات کی اصابت سے انکار ممکن نہیں کہ اگر کوئی تحقیقاتی ٹیم ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی کے صدر اور اپوزیشن لیڈر کو قومی اسمبلی کے ایک رکن کے خلاف سرکاری گواہ بن کر جھوٹ بولنے کی ترغیب دے سکتی ہے تو وہ عام سرکاری افسروں اور یا دیگر لوگوں کے ساتھ کیا سلوک نہیں کرتی ہوگی۔

احتساب کا مطلب قانون شکنی نہیں ہو سکتا۔ نیب اگر اپنا اعتبار اور بھروسہ قائم کرنا چاہتی ہے تو اسے خود بھی قانون پر عمل کرتے ہوئے اخلاقی معیار پر پورا اترنا پڑے گا۔ حکمران جماعت تحریک انصاف کی قیادت کے لئے یہ حقیقت اطمینان کا سبب تو ہو سکتی ہے کہ اس کے مخالفین کو نیب پکڑ کر ہراساں کررہی ہے۔ لیکن ایسے اقدامات کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے باوجود حکومت ملک میں حقیقی احتساب کا مقصد پورا نہیں کرسکتی۔ وزیر اطلاعات نے قومی اسمبلی میں ان الزامات کا جواب دینے کے لئے مسلم لیگ (ن) کے ماضی کو کھنگالنے اور یہ کہنے کی کوشش ضرور کی کہ انہیں جب حکومت کرنے کا موقع ملا تھا تو کیوں احتساب قوانین کو بہتر نہیں بنایا گیا۔ اس دلیل کو درست ماننے کے باوجود اسے احتساب کو شفاف بنانے اور نیب میں وسیع اصلاحات کی ضرورت کو نظرانداز کرنے کے لئے حجت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

وزیر اطلاعات غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز گفتگو کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ اگرچہ وفاقی حکومت کے ایک ذمہ دار منصب پر فائز ہیں لیکن اس بات کی احتیاط نہیں کرتے کہ ان کی باتیں حقائق پر استوار ہوں یا ان سے کسی کی دل شکنی نہ ہو۔ فواد چوہدری کے اس رویہ کی وجہ سے آج قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے بار بار انہیں تقریر کرنے سے روکا۔ سیاسی احترام اور افہام و تفہیم کے لئے یہ طریقے مناسب نہیں ہو سکتے۔ تاہم اپوزیشن سے ذمہ داری کا مطالبہ کرنے سے پہلے حکومت کے نمائیندوں کو خود اشتعال انگیزی اور توہین پر مبنی طرز عمل اختیار کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ یہاں یہ بات بھی غور کے قابل ہے کہ اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری پر ہونے والے قومی اسمبلی کے اہم اجلاس میں وزیر اعظم کے علاوہ وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ جیسے اہم مناصب پر فائز لوگوں نے بھی شرکت کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اس سے حکومت کے اس مزاج کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو کتنی اہمیت اور احترام دیتی ہے۔

حکومت کو ملک میں احتساب کا نظام ضرور استوار کرنا چاہئے اور احتساب کے اداروں کو ضرور خود مختاری ملنی چاہئے۔ لیکن یہ اطمینان کرنے کی ضرورت بھی ہو گی کہ یہ باتیں محض نعروں کی حد تک نہ ہوں اور قوانین و اختیارات کو حقیقی معنوں میں ایک کھرا معاشرہ قائم کرنے اور بے اعتدالی کی روک تھام کے لئے استعمال کیا جائے۔ موجودہ نیب کی اصلاح کے بغیر اور اس کے اختیار اور طریقہ کار کے بارے میں قومی اسمبلی میں تفصیلی بحث کے بعد مناسب قانون سازی کئے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔

تحریک انصاف کو سمجھنا چاہئے کہ اگر واقعی احتساب ہی اس کا بنیادی سیاسی ایجنڈا ہے تو اسے سب سے پہلے نیب کی اصلاح کا بیڑا اٹھانا چاہئے تاکہ کسی اپوزیشن لیڈر کو نیب کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے اسے حکومت کی سازش قرار دینے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali