نجی اسکولوں میں داخلہ: تعلیم یا معاشرتی دباو


والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ بہتر اور معیاری تعلیم حاصل کرے؛ اس مقصد کے لیے وہ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کی تعلیم پہ لگاتے اور زندگی کی جمع پونجی ان نونہالوں کے مستقبل پہ خرچ کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے، کیا بنیادی تعلیم اتنی مہنگی ہے، کہ والدین بچوں کی بھاری بھر کم فیسوں سے تنگ آ کر مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، اور معاشی بوجھ انہیں وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتا ہے؟

بنیادی تعلیم عام طور پہ اتنی مہنگی نہیں ہے، جتنا نجی اداروں نے اسے مہنگا بنا دیا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ریاست نے تعلیم کو اہمیت دی ہے اور اس مقصد کے لیے سرکاری اداروں میں بے پناہ سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں، تا کہ کوئی بچہ بھی علم جیسے مقدس فریضے سے محروم نہ رہ جائے۔
ریاست کی ترجیح عام آدمی کے تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات کم سے کم کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں محنتی، ماہر اور بہترین تعلیمی استعداد رکھنے والے اساتذہ میسر ہیں۔ فیسیں بھی معاف یا بہت کم ہیں لیکن یہ فیشن چل نکلا ہے، اگر فلاں پڑوسی یا شریک برادری کا بچہ اگر کسی مہنگے نجی ادارے میں پڑھتا ہے، تو والدین نے الٹا لٹک کے اسے بھی وہیں داخل کروانا ہوتا ہے۔ یہ نہیں دیکھنا سرکاری اسکول میں کتنے کوالیفائڈ اساتذہ ہیں، اور تعلیم کا معیار ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتر ہو رہا ہے۔
ایسے تو تعلیم مشکل ہی ہوگی۔ پھر لوگ کیا کہیں گے کہ ہمارا بچہ پاک پتن کے پس ماندہ گاوں قادرپور یا کلیانہ کے اسکول میں پڑھ رہا ہے؛ جب کہ فلاں تو بچوں کو پڑھانے کے لیے شہر شفٹ ہو گیا۔ اس بات نے تعلیم مشکل کر دی ہے اور گھروں کی زندگی عذاب کر دی ہے۔

خواتین کا اس میں مرکزی کردار ہے، جو گھریلو سیاست سے تنگ ہوتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ ‘پتی دیو’ کو شہر کے بہانے ساس سسر,نندوں اور دیوروں کے چنگل سے آزاد کروا کے، اپنی قید میں کر لیں۔ آگے اپنے اور پتی دیو کے حالات نہیں دیکھے جاتے۔

اپنی محنت اور قابلیت کے بل بوتے پہ ہوتہ جیسے پس ماندہ علاقے کے اسکول سے مڈل اور پھر ایف ایس سی، پاک پتن کے اداروں سے کر کے ڈاکٹر حنان جاوید ہاورڈ یونیورسٹی جا سکتا ہے، تو پھر ہر بچہ خود کو منوا سکتا ہے۔ مختلف شعبوں میں کام یاب شخصیات کی بڑی تعداد، انھی سرکاری اسکولوں میں پڑھی ہے۔

اسکول یا کالج کےدر و دیوار کے ساتھ انسان کی ان گنت یادیں جڑی ہوتی ہیں، جنھیں وہ فرصت کے اوقات میں یاد کرتا ہے۔ سرکاری ادارے انھی خوب صورت یادوں کو زندہ رکھتے ہیں۔ پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھنے کے چند سال بعد، بندہ دوبارہ اسکول جاتا ہے، تو اس مقام پہ ہوٹل, پیژا شاپ یا شو روم ٹائپ کوئی چیز کھلی ہوتی ہے، تو ساری یادیں غائب ہو جاتی ہیں۔ بندہ خود کو بھی کوستا ہے، اور ان یادوں کو بھی۔

بچے کی ذہنی نشو و نما کے لیے نصابی کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں بہت ضروری ہوتی ہیں، اور اس مقصد کے لیے کھلی اور پر فضا جگہ کا ہونا ضروری ہے۔ سرکاری اداروں میں کمرے عام طور پر کھلے اور ہوا دار، کھیل کے لیے گراونڈ کی سہولیات دستیاب ہوتی ہیں، جب کہ پرائیویٹ ڈربا نما اسکولوں میں یہ سہولیات دُور دُور تک دست یاب نہیں ہوتیں۔

ایک اور بات جو مشاہدے میں آئی ہے، کہ والدین اسی معاشرتی دباؤ کی وجہ سے بچوں کو پڑھاتے تو پرائیویٹ اداروں میں ہیں لیکن ان کی ٹیوشن گورنمنٹ ادارے کے استاد کے پاس ہی رکھواتے ہیں، تا کہ ان کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔

اس لیے خدارا دوسروں کی دیکھا دیکھی، اپنے بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں، اور جہاں تک ممکن ہو سرکاری اداروں ہی میں تعلیم دلوائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).