اِک جاں پروری اور‘ڈئیوس، علی اور دیا ’


آج کل ہمارا فراغت کا زمانہ ہے سو زیادہ وقت مہمان نما دوستوں کے ساتھ ہی گزرتا ہے۔ اُس پنجابی کہاوت کے مصداق کہ‘‘ویھلی رَن پرونیاں جوگی’’۔ دفتری اوقات میں بھی کچھ ایسے دوست ملنے آ جاتے ہیں جن کے صدورِ شعبہ نے اُن کے ورک لوڈ کی تین کلاسوں میں سے ایک صبح آٹھ بجے اور بقیہ دو ساڑھے بارہ بجے کے بعد رکھی ہوئی ہیں۔ کبھی کبھی اُن کا تشریف لانا غیرعلانیہ اظہارِ یکجہتی بھی محسوس ہوتا ہے۔ بہر کیف ہم راضی ہیں۔ یونیورسٹی کے بیشتر اساتذہ کلاسز کے بعد کا وقت ریسرچ کی سرگرمیوں کو دیتے ہیں لیکن ہمارے قابل دوست سمجھتے ہیں کہ ایم فل کےکسی طالب علم کا تھیسس اُٹھائیں، ریسرچ پراجیکٹ کے طور پر جمع کرائیں اور اپنی سی وی میں بولڈ کر کے اُس کا ٹائیٹل لکھ دیں، اللہ اللہ خیر سلا۔

فارغ دوستوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ مخلص ہوتے ہیں سو ہمیں اپنے خلوص میں لپیٹ لپیٹ کر مشورے دیتے ہیں۔ ہم بھی غور سے اس لیے سنتے ہیں کہ ڈیموس تھنیز کے مشہور قول کے مصداق اچھی قسمت سے ملنے والی فراغت کہیں اچھے مشورے کے بغیر ضائع ہی نہ کر بیٹھیں۔ ایک دوست نے پچھلے دنوں مشور ہ دیا کہ اپنے لیے بھی لکھو جس سے اُن کی مراد یقیناً یہی تھی کہ اپنی مرضی یا اپنی اُفتادِ طبع کے مطابق بھی لکھو۔ سو وہ جو تازہ تازہ ایک ناول ‘بھاگ بھری’ پڑھا تھا اُس پر تبصرہ لکھنے بیٹھ گیا۔ ظاہر ہے جب آپ اپنے لیے لکھتے ہیں تو نسبتاً آزادی سے لکھتے ہیں، میں نے روایتی انداز چھوڑ، جیسےاور جو سمجھ میں آیا لکھ دیا۔ تبصرہ کیا تھا مضمون ہی ہو گیا۔ چھپ گیا، کچھ کو پسند آیا کچھ کو نہ آیا۔

مشورہ دینے والے اُس دوست کو بھی پیش کیا اور بتایا کہ یہ اپنے لیے لکھا ہے اورمجھے یقین ہے کہ آپ کو اس میں کم از کم روایتی تحقیقی مضامین والی بے برکتی نظر نہیں آئے گی۔ اُس نے ورق گردانی کی اور بولا ‘‘یار یہ اُردو میں لکھنے والوں کو ایک بڑی بیماری لاحق ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ اُردو کے صرف ناول نگاروں کےاندر ہی ایک عدد فلسفی بیٹھا ہوتا ہے جو اُن کے ناول کو ناول نہیں بننے دیتا لیکن یہ مسئلہ تو تم سب کے ساتھ ہے، بھئی جب تم مبصر ہو تو مبصر ہی رہو، سیدھا سیدھا بتاؤ کہ تم نے جوپڑھا وہ کیسا ہے اوربات ختم۔ ہمزاد سے کوئی مکالمہ کرنا ہے تو خلوت میں کرو، اپنی لنگڑی تخلیقیت کے زعم میں تبصرے کو کیوں خراب کرتے ہو۔ اصل میں تم سب کو دانشوری کا کیڑا ہوتا ہے۔ میں نے تمہارے بھائی بندوں کومختلف ادبی اجلاسوں میں گفتگو کرتے ہوئے بھی نوٹ کیا ہے، فلابیئر، سارتر، ایڈورڈ سعید، فوکو، ہومی کے بھابھا وغیرہ وغیرہ کا نام لینا تو اب فیشن ہے۔ دراصل ایسےکسی دانشور کا نام لے کر خود کو برانڈ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

’’اپنے دوست کے ان خیالات پر ظاہر ہے کہ مجھے پہلا احساس تو یہی ہوا کہ وقت ہی ضائع کیا، بہتر تھا کہ ناول پر تبصرے کی بجائے ‘‘علامہ شبلی نعمانی کی شعرالعجم کے مختلف ایڈیشنز:تقابلی مطالعہ’’ ایسے کسی موضوع پر مضمون لکھتا۔ اوکھا سوکھا چھپ ہی جاتا، سی۔ وی کا ویٹیج بڑھتا اور یونیورسٹی مبلغ پندرہ ہزار اعزازیہ بھی دیتی جس سے ایسے آٹھ دس دوستوں کی ایک دعوت ہوتی، بیگم کے ساتھ سینما گھر کا ایک چکر لگاتے، کچھ پیسے اگر بچتے تو بچوں کو ایک ایک کھلونا لے دیتے۔ دوست تو دوست کوئی ہفتہ پہلے ہمسایے میں مقیم حوالدارشمیم بِڈا (سرائیکی میں چھوٹے قد والے کو بِڈا کہتے ہیں) نے مجھے روک لیا۔ موصوف کا پورا نام تو حوالدار شمیم عارف رانا ہے لیکن محلے میں شمیم بِڈا ہی مشہور ہیں۔

‘بھاگ بھری’ پڑھنے کی تحریک مجھے یوں ملی کہ اتفاق سےکوئی دو مہینے پہلے شمیم بِڈا کی بیٹی کو جو کسی پرائیویٹ کالج سےایم اے اُردو کر رہی ہے اُس ناول کے حوالے سے اسائن منٹ تیار کرنا تھی سو ہمیں اُردو کا پروفیسر جانتے ہوئے وہ بیٹی کو ساتھ لیے آگئے کہ ذرا یہ ناول کے فکر و فن پر بچی کو چند نکات سمجھا دیجیے۔ میں نے کہا پہلے خود پڑھوں گا پھر ہی کچھ سمجھا سکتا ہیں۔ سو ناول پڑھا اور چند باتیں جو میری سمجھ میں آئیں اُس بچی کو بھی سمجھا دیں۔ اُس کے بعد خیال آیا کہ کیوں نہ اس پر ایک غیر روایتی تنقیدی تبصرہ بھی لکھا جائے سو لکھ دیا۔ اب جو حوالدار شمیم بِڈا نے مجھے روکا تو پوچھنے لگے‘‘پروفیسرصاحب میں نے فیس بک وال پر آپ کا مضمون دیکھا، آپ وہ مضمون ہماری بٹیا کو ہی لکھوا دیتے، آپ نے چند باتیں بتا کر جان چھڑوا لی’’۔

میں نے جواب دیا کہ‘‘شمیم صاحب مضمون تو بس ایویں ہی سا ہے، بیٹی کو ہم نے جو باتیں بتائیں وہ زیادہ اہم اور بنیادی تھیں’’۔ بولے ‘‘ہاں۔۔ آپ شاید صحیح کہہ رہے ہیں، مجھے بھی وہ ہمزاد سے مکالمہ اور چھتیس فوٹوز والا کیمرہ اور چوبیس ویلر ٹرالر والی باتیں پڑھ کر کچھ ایسا ہی لگا کہ آپ نے اپنے جیسوں کے لیے ہی کچھ لکھا ہے۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ ناراض تو نہیں ہوئے! مذاق کر رہا ہوں’’۔ شمیم بِڈا صرف میرا ہمسایہ ہی نہیں بلکہ میرے بزرگوں کو اپنے بچوں کی طرح عزیز رہا ہے کہ یتیمی میں اُن کی گود میں پل کر بڑا ہوا، اس لیے اُس کی اس بدمذاقی کا میں نے ہمیشہ کی طرح کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا اور ‘‘نہیں نہیں !!کوئی بات نہیں۔۔۔’’ کہہ کر گھر آ گئے۔

سمجھ میں یہ آیا کہ اصل مسئلہ ہمزاد اور اُس کی فضول باتوں نے پیدا کیا۔ اب جب ‘ڈئیوس، علی اور دیا’ پڑھنا تھا تو ہم نے پہلے اپنے گاؤں کا ایک چکر لگایا کیونکہ یہی وہ ایک جگہ ہے جہاں جانے کے بعد جنابِ ہمزاد کا واپس آنےکو من نہیں کرتا۔ دو دِن وہاں رُکنے کے بعد واپس آنے لگا تو میرے ہمزاد نے ہمیشہ کی طرح مزید رُکنے پر اصرار کیا۔ میں نے موقعے کو غنیمت جانتے ہوئے کہاکہ‘‘یار تم ہر دفعہ مزید رُکنے کی ضد کرتے ہو۔۔۔ چلو اس بار تم یہیں رُکو! میں چلتا ہوں۔۔۔ جب دل کرے آ جانا۔’’ موصوف فوراً راضی ہو گئے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

خاور نوازش

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

خاور نوازش

ڈاکٹر خاور نوازش بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اُردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ اُردو اور ہندی تنازع کی سیاسی، سماجی اور لسانی جہات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ اُن کے پہلی کتاب‘ مشاہیرِ ادب: خارزارِ سیاست میں’ 2012ء میں مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے شائع ہوئی۔ ‘ادب زندگی اور سیاست: نظری مباحث’ کے عنوان سے اُن کی دوسری کتاب مثال پبلشرز فیصل آباد نےشائع کی۔ اُردو کی ادبی تحقیق و تنقید کے ساتھ ساتھ عصری سیاست اور سماجی موضوعات پر بھی لکھتے ہیں۔ اُن سے اس میل ایڈریس پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔[khawarnawazish@bzu.edu.pk]

khawar-nawazish has 5 posts and counting.See all posts by khawar-nawazish