اِک جاں پروری اور‘ڈئیوس، علی اور دیا ’


اب میں یہاں ہوں، آپ کے ساتھ۔۔۔۔ اور وہ وہاں ہے، میرے اور اپنے بچپن کے ساتھ۔۔۔

دانشوری کے کیڑے کا علاج فی الحال بہت مہنگا ہے اور میری محدودتنخواہ میں تو ممکن نہیں۔۔۔

نعیم بیگ کا ناول ‘ڈئیوس، علی اور دیا’پڑھ چکا ہے۔۔۔

شمیم بِڈا اپنے اُس بڑے بھائی کی خاندان سمیت پاکستان واپسی پر اُداس اُداس پھرتا ہے جس کے گھر پر قابض ہونے کے وہ منصوبے بنا رہا تھا۔۔۔

اس سے پہلے کہ میں ‘ڈئیوس، علی اور دیا’ پر کچھ لکھنا شرو ع کرتا، کیا دیکھتا ہوں کہ ڈھلتی شام میں ملتانی گرو اور مہا گرو ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں۔۔۔ ہیلن کی خوبصورتی اور بے مثال حسن ہیکٹر جیسے بہادریُدھا کے سینے کو چیرنے والی تلوار بن چکے ہیں اورٹرائے جل رہا ہے۔۔۔ خاتونِ اول ٹی وی پر وزیرِ اعظیم عمران خان کے نوافل کی تعداد گنوا رہی ہیں۔۔۔ کولرج اور ورڈزورتھ کی وہ دوستی پھر سے قائم ہوگئی ہےجو کولرج کی طرف سے ورڈزورتھ کی بہن ڈورتھی میں دلچسپی کے بعد ختم ہو ئی تھی۔۔۔ علاقے کے تمام پٹرول پمپس کے ٹائیلٹس کی صفائی چیک کرنے کے لیے ایک بڑے ادارے کے ریٹائرڈ لوگوں کو اس شرط پر بھرتی کیا جا رہا ہے کہ اُن کے پاس اپنا سمارٹ فون ہو تاکہ گندگی کی تصاویر نئے چئیر مین میونسپل کمیٹی کو واٹس ایپ کرسکیں۔۔۔

شیخ سعدی، مرزا غالب، عبدالستار ایدھی اور سٹیفن ہاکنگ نے مل کر عالم ِ ارواح سے ایک سہ ماہی ‘انسان’جاری کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جس کےپہلے شمارے کے سرورق کے لیے لکھنؤ سے محوِ رقص امراؤ جان ادا کی ایک تصویر منگوائی گئی ہےاور اس خدمت کے لیے الیاس کبیر ملتان والے مضطرب ہیں۔۔۔ اٹلی کے ایک نوجوان گلیلیو نے جب یونان کے بوڑھے ارسطو کی اس بات کو کہ دس پونڈ کا وزن ایک پونڈ کی بہ نسبت زمین پر دس گنا تیزی کے ساتھ گرے گا غلط ثابت کیا تو بابے رحمتے نے ازخود نوٹس لے لیا اور توہینِ ارسطو پر گلیلیو کی دوربین ضبط کرتے ہوئے بینائی سے محرومی کی بددعا سنادی ہے۔۔۔

اُردو حروفِ تہجی کے دو نوں ‘‘کافوں’ ’نے ایک دوسرے کی منفرد پہچان کو بہ ظاہر قبول کر لیا ہے لیکن سفائر کے دو دو پیگ لگانے کے بعد اس قبولیت کا ‘‘حقیقی اظہار’’ مقامی زبان سرائیکی میں کرتے ہیں۔۔۔ ڈی جی نیب کی معافی کے بعد بیشتر بیورو کریٹس اپنے دفاتر کے باہر آویزاں تختیوں پر ‘‘سابق پروفیسر، ادارہ ا۔ ب۔ ج’’ لکھوا رہے ہیں۔۔۔ ایک حاملہ دکھائی دینے والی بکری نےموجودہ سرکار سے مقامی سطح پر منعقدہ میراتھن میں بھاگنے کا معاوضہ صرف پینتالیس ٹکے فی ششماہی مانگا ہے۔۔۔ اور سب سے اہم اور آخری بات یہ کہ موسمیاتی تبدیلی آتے ہی پگھلنے کے ڈر سے ہمالہ نے جماعتِ اسلامی جوائن کر لی ہے۔۔۔ یہ سب ہم نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کمزور دل پہ سہا اور پھر آسمانی دیوتا ڈئیوس اور دیوی دِیا کے بیچ دیوار بننے کے لیے تیارکھڑے ایک ایسے پاکستانی نوجوان علی کمال ہمدانی کی کہانی کی طرف متوجہ ہوئے جو نوجوانی میں ہر خوبرو لڑکی کے ہونٹوں تک پہنچتے ہی گھر بیٹھی مجبور ماں، سفید پوش باپ اور غیر شادی شدہ بہن کا سوچنے لگتا ہے۔ اسی سوچ میں جب نوجوانی اور جوانی دونوں بیت جاتی ہیں تو بیوروکریٹ بن کر وہ بالآخر شیزوفرینیا کے انجام کو پہنچتا ہے۔

‘ڈئیوس، علی اور دیا’لاہور میں مقیم جناب نعیم بیگ کا تازہ ناول ہے جو کچھ عرصہ پہلے عکس پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوا۔ اس سے پہلے نعیم بیگ دو انگریزی ناولوں‘ٹرپنگ سول’ اور ‘کوگن پلان’ اور دو افسانوی مجموعوں‘یو ڈیم سالا’اور ‘پیچھا کرتی آوازیں’ سے ادبی حلقوں میں متعارف ہو چکے تھے۔ پیشہ وارانہ زندگی میں وہ بینکاری اور انجینئرنگ منیجمنٹ سے متعلق رہے ہیں۔ اب ریٹائرڈ لائف کا زیادہ وقت ادبی محافل میں شریک ہو کر، لائبریریوں میں، کہانیاں اور کالم لکھ کر، اپنےسمارٹ فون کو نر انگشت سے چھیڑتے ہوئے یا اپنی کتب کے اُن پبلشرز کو کوستے ہوئے گزارتے ہیں جنھیں رتی برابر احساس نہیں ہوتا کہ تخلیق کار کس اذیت سے گزر کر لکھتا ہے اور وہ کمپوزنگ اور چھپائی کے مراحل میں اُس تخلیق کا بیڑہ غرق کر دیتے ہیں۔

نعیم بیگ 1951ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے اور بچپن سے جوانی تک کا عرصہ مختلف شہروں میں گزارا۔ اُن کے والد جو الیکٹرک ٹرانسمیشن کمپنی میں ملازم تھے مختلف شہروں میں ٹرانسفر ہوتے رہے۔ نعیم بیگ گوجرانوالہ اور لاہور سے بھی زیادہ کوئٹہ شہر کے ساتھ جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں کہ وہاں بہت سی یادیں بسی ہیں۔ روزگار کے سلسلے میں ملک سے باہر بھی لگ بھگ تین برس گزارچکےہیں۔ ‘ڈئیوس، علی اور دیا’ کے مرکزی کردار علی کمال کے بہت سے معاملات میں خود نعیم بیگ کے سوانحی حالات کی جھلک موجود ہے بالخصوص بچپن کے واقعات اور ملک سے باہر گزرے وقت کے مشاہدات اور تجربات میں نعیم بیگ اور علی کمال میں کافی مماثلت ہے۔
‘ڈئیوس، علی اور دیا’کسی بھی قسم کے مشکل بیانیے، تکنیک اور علامتوں سے پاک ایک سپاٹ کہانی ہےجو ایک مرکزی کردار علی کمال کے بچپن سے شروع ہو تی ہے اورہمارے مجموعی نظام کے جبر سے شیزو فرینیا کے نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہونے اور اُس سے باہر نکلنے کی طرف پیش رفت کے دوران دوبارہ اُسی حالت میں دھکیلے جانے پر ختم ہوتی ہے۔ ناول کے ضمنی کرداروں میں ویکلی ‘روشن آسمان’کے فیچر سیکشن کی انتہائی لبرل انچارج سارہ قزلباش اور اُس کا اسسٹنٹ نعمان احمد سب سے اہم ہیں۔ ناول ان دونوں کے مکالموں سے شروع ہوتا ہے اور ان دونوں کے مکالموں پر ہی ختم ہوتا ہے۔

یہ مکالمے ناول کی کہانی سے براہِ راست متعلق نہیں ہیں اوران کی صحت بھی قدرے خراب ہے۔ نعمان اپنی باس سارہ میں بہت زیادہ انوالو ہے لیکن ناول نگار نے اس بیچارے کے ساتھ بھی مرکزی کردار علی کمال جیسا سلوک برتتے ہوئےبھیگتی رات کے ٹرانس میں بادبانی کشتی پر سوار سارہ کے بہت قریب لا کر صرف اس لیے پیچھے ہٹا دیا ہے کہ باس ناراض ہو گئی تو کیرئیر بھی ہاتھ سے جائے گا۔ ‘‘کیرئیر’’ وہ نفسیاتی خوف ہے جو پورے ناول میں فطری انسانی جذبات کو قابو میں رکھنے یا بیشتر جگہوں پر دبانے کا آلہ بنا ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

خاور نوازش

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

خاور نوازش

ڈاکٹر خاور نوازش بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اُردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ اُردو اور ہندی تنازع کی سیاسی، سماجی اور لسانی جہات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ اُن کے پہلی کتاب‘ مشاہیرِ ادب: خارزارِ سیاست میں’ 2012ء میں مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے شائع ہوئی۔ ‘ادب زندگی اور سیاست: نظری مباحث’ کے عنوان سے اُن کی دوسری کتاب مثال پبلشرز فیصل آباد نےشائع کی۔ اُردو کی ادبی تحقیق و تنقید کے ساتھ ساتھ عصری سیاست اور سماجی موضوعات پر بھی لکھتے ہیں۔ اُن سے اس میل ایڈریس پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔[khawarnawazish@bzu.edu.pk]

khawar-nawazish has 5 posts and counting.See all posts by khawar-nawazish