اِک جاں پروری اور‘ڈئیوس، علی اور دیا ’


معاشرتی سطح پر وہ بالکل اکیلا ہو گیا۔ دوسری تنہائی باطن کی تھی جو شاید مٹ جاتی کہ دِیا اچانک اُس کی زندگی میں واپس آگئی تھی۔ یہ وہ سیچویشن ہے جہاں ناول نگار نے اپنی دانست میں پلاٹ کو ٹوسٹ دینے والی ایک تکنیک کا استعمال کیا ہے جسے ‘Deus ex machina’(ڈی یوس ایکس میکینا)کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ لاطینی اصطلاح ہے۔ نعیم بیگ صاحب نے اسے ‘ڈئیوس ایکس مشینا’لکھا ہے(ص146)۔ غالباً اس لیے کہ انگریزی میں اس سے مراد مشین سے یکدم باہر نکلنے والے طاقتور دیوتا کی ہے۔ اس اصطلاح کے اشتقاق میں جائیں تو بہرکیف ‘مشینا’ہی درست لگتا ہے کہ یونانی ٹریجڈیز کو سٹیج کرنے والے ایکٹرز میں سے جو دیوتا ؤں کے رُوپ میں اچانک نمودار ہوتے تھے ایک مشین کے ذریعے ہی کسی سین میں ٹپکتےتھے۔ درست تلفظ کے مسئلے میں پڑے بغیر ہم یہ واضح کرتے چلیں کہ یہ تکنیک بہت پہلے یونانی ٹرجڈیز میں پلاٹ کو ٹوسٹ دیتے ہوئے آگے بڑھانے کے لیے استعمال کی جاتی تھی اور آج کا سائنس فکشن تو اس کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ یوری پیڈیز یا ارسطو یا بہت بعد کے شیکسپئیر کی مثال دینا بھی دُور کی کوڑی لانے ایسا کام لگتا ہے، آج کی‘ہیری پوٹر’ سیریز کی کوئی کہانی اٹھا کر دیکھ لیں یا ‘انڈیا ناجونز’، ‘اولیور ٹوسٹ’ اور ‘لارڈ آف دی رنگز ’ایسی بیسیوں مثالیں مل جاتی ہیں جہاں اس تکنیک کو برتتے ہوئے ایک سیچویشن کو یکدم اور یکسر تبدیل کیا جا تاہے۔

اِسے تخلیق کار کی تخلیقیت پر سوالیہ نشان بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی کہانی کو ایسے موڑ پر لے آتا ہے جہاں سےآگے کی طرف کوئی راستہ نہیں نکلتا سو وہ اس ‘پلاٹ ڈیوائس’ کو استعمال کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ نعیم بیگ ‘ڈئیوس، علی اور دیا’میں ایک جگہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ قدیم گریک مائتھالوجی میں یونانی خدا کا نام ہے جو طاقت کی علامت کے طور پر کسی بھی منظر میں غیر مرئی طور پر حاوی ہو جاتا ہے(ص147)۔ علی اور دِیا جب دوبارہ قریب آئے تو ڈئیوس دیوتا سے یقیناً برداشت نہ ہواکہ ایک دیوی ایک زمیں زاد کے اتنی قریب آرہی تھی جیسےاب اُسے زمین پر ہی اترآنا ہو۔ ڈئیوس نے پہلی دفعہ یونا ن میں اپنی دِیا کو علی سے بچایا لیکن آسمان سے کوئی خوفناک بجلیاں نہیں برسائیں، اب کی بار اس طاقتور دیوتا نے علی کو معاف نہ کیا۔

ڈئیوس غیر مرئی طور پر اس سیچویشن میں نمودار ہوا اور ایجنسیوں نے علی کمال کو اٹھا کر جیل میں ڈال دیا۔ یہ ضیاء الحق کا زمانہ تھا اور علی کوجو بیورکریسی سے استعفیٰ دے چکا تھا، اُس کے پرانے ‘محکمہ جاتی شریکوں’نے اپنے کرتوت چھپانے کے لیے ایک میگا کرپشن اسکینڈل میں پھنسا دیا تھا۔ گوکہ علی کے مالی اثاثے اُس الزام سے مطابقت نہ رکھتے تھے لیکن دِیا اور اُس کے غیر ملکی دوستوں سے علی کی ملاقاتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایجنسیوں کو یہ الزام لگانے میں آسانی ہوئی کہ علی کمال اس کرپشن سے اکٹھی کی گئی تمام کمائی ملک سے باہر منتقل کر چکا ہے۔ ناول کے اس حصے میں نعیم بیگ نے پاکستانی اشرافیہ کی بے پناہ طاقت اور بالخصوص دورِ آمریت میں مارشل لاء کی اس نظام کو بھرپور سپورٹ کی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے۔ علی اپنے سابقہ محکمے کی سازش کا شکار ہوتا ہے، جیل میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنتا ہے، عدل و انصاف کے لیے تڑپتا ہے، دِیا کو ہمیشہ کے لیے کھو دیتا ہے، امبر بھی اُس سے خلع لے چکی ہے اورخاندان کا آخری ساتھ جو بہن کی صورت میں باقی تھا اُس کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اُس کی زندگی میں اب مکمل اندھیرا ہے۔ اُس نے حتی الامکان کوشش کی کہ اپنی ڈار سے نہ بچھڑے لیکن ڈار کی ڈار اُسے اکیلا چھوڑ گئی۔ ان حالات میں علی کمال کا کالج کا دوست اور سی ایس ایس بیج میٹ حمزہ درانی جو اب وفاقی ہوم سیکرٹری بن چکا تھا اُس کی رہائی اور حالات کو واپس معمول پر لانے کی کوشش کرتا ہے لیکن تنہائی، منتشر خیالات، دوست کے سامنے شرمندگی، معاشرے میں خجالت، جسمانی تشدد، غصہ، سماج سے نفرت اور بے بسی کا احساس مل کر اُس علی کو شیزوفرینیا کا مریض بنا دیتے ہیں۔

بروقت علاج ملنے سے اُس کی حالت سنبھلنے لگتی ہے۔ لیکن اشرافیہ کو ڈر ہے کہ اگرعلی سنبھل گیا تو وہ اس نظام کے خلاف کھڑا ہوسکتا ہے، سچ لوگوں کے سامنے آسکتاہے اور بابوؤں کی دنیا کے لیے ایک چیلنج بن سکتا ہے۔ سو محکمۂ داخلہ والے اُسے دوبارہ اٹھا کر جیل میں ڈال دیتے ہیں۔ ڈئیوس دیوتا کی طاقت کے سامنے ہر کوئی بے بس ہے۔ اس کے نمودار ہونے سے اس ناول کے پلاٹ کو ایسا ٹوسٹ ملتا ہے کہ علی کی زندگی میں یکسر تاریکی چھا جاتی ہے۔ یہ ڈئیوس ہماری اشرافیہ اور کولونیل دور میں بچھایا گیا اس کا وہ مضبوط نظام ہےجواُن کے مفادات کا محافظ ہے۔ اس کی منہ زوری کے سامنے اس دھرتی کا ہر عام باشندہ بے بس ہے۔

نعیم بیگ نےیہ ناول اپنی آنکھوں میں آزادی کا خواب سجائے ان کروڑوں پاکستانیوں کے نام کیا ہے جنھیں نئے ملک میں نئی زنجیریں ملیں۔ یہاں سوچنے والے دماغوں کو ہمیشہ پابندیوں کا سامنا رہا۔ آج بھی اظہارِ رائے کی حقیقی آزادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ روزبروزصورتِ حال مزید گھمبیر ہوتی جارہی ہے۔ سوچتا ہوںکہ لیپ ٹاپ پر اگر‘ بیک سپیس’کا بٹن نہ ہوتا تو مجھ ایسوں کو اُن بلیک سپیسز سے کون بچاتا جہاں زمیں زادوں کو ایک روزن بھی ‘شاہِ شرق ’لگتا ہے۔ ‘ڈئیوس، علی اور دیا’ ایک انسان ہی نہیں بلکہ ہمارے پورے سماج کے وجودی کرب کا دستاویزی اظہار ہے۔ فنی اعتبار سے اس میں کئی کمزوریوں کی نشاندہی ممکن ہے لیکن فکری اعتبار سے یہ پاکستان کے اُن بیس برسوں(1970ء تا 1990ء)کو موضوع بناکر ایک شاندار ناول بن جاتا ہے جو تقسیم سے دس برس پہلے یا دس برس بعد پیدا ہونے والی نسل کی زندگی کا اہم ترین دور ہے۔

یہ دورہمارے بڑوں کے لیے آزادی کے خواب کی تعبیر ملنے کی اُمید بننے اور بہت جلد ٹوٹنے کا دور ہے۔ ہماری نسل کی تو خیر بات ہی الگ ہے۔ اِدھر ہم تولد پذیر ہو رہے تھےتو اُدھر جیمز کیمرون کی مقبول ترین فلم ‘ایلینز’(Aliens)ریلیز ہو رہی تھی۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم سچ مچ کے ایلین ہی ہیں۔ عجیب ہونقوں کی طرح کھڑے ہیں، پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو اپنی تہذیب، روایات، خاندانی نظام، معاشرتی ڈھانچہ اوربابے موتیاں والے کا دربار نظرآتا ہے، آج کو دیکھیں تو مصنوعی ذہانت کی بے پناہ ترقی میں اپنا وجود خطرے میں نظرا ٓتا ہے اور مستقبل کو دیکھنے کی کوشش کریں تو بلیک ہول نظرآتا ہے۔ جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو سامنے خبر چل رہی ہے کہ یو۔ پی کا تاریخی شہر الٰہ آباد آج کے بعد پریا گ راج ہو گا کہ یہی اس کا اصل نام تھا جسے مغل بادشاہ اکبر نے 1583ء میں تبدیل کرکے الٰہ آباد رکھا تھا۔
بلیک ہول کا سائز بڑھ رہا ہے۔۔۔ آوازیں آرہی ہیں۔۔۔ خوش خوش رہا کرو۔۔۔ خوش خوش رہا کرو۔۔۔ میں نے اپنا قلم یہیں روک دیا ہے۔۔۔ محشر ؔبدایونی یاد آگئے

کرے دریا نہ پل مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اُس پار میرے

 

خاور نوازش

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

خاور نوازش

ڈاکٹر خاور نوازش بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اُردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ اُردو اور ہندی تنازع کی سیاسی، سماجی اور لسانی جہات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ اُن کے پہلی کتاب‘ مشاہیرِ ادب: خارزارِ سیاست میں’ 2012ء میں مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے شائع ہوئی۔ ‘ادب زندگی اور سیاست: نظری مباحث’ کے عنوان سے اُن کی دوسری کتاب مثال پبلشرز فیصل آباد نےشائع کی۔ اُردو کی ادبی تحقیق و تنقید کے ساتھ ساتھ عصری سیاست اور سماجی موضوعات پر بھی لکھتے ہیں۔ اُن سے اس میل ایڈریس پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔[khawarnawazish@bzu.edu.pk]

khawar-nawazish has 5 posts and counting.See all posts by khawar-nawazish