بجلی کی یاد میں


بجلی کی آنکھ مچولی جاری تھی بالآخر آنکھیں جھپکاتی ہوئی چلی گئی۔ خاصے انتظار کے باوجود نہ آئی، ہمت فین جھلتے جھلتے کلائی دُکھنے لگی تو میں تنگ آ کر باہر نکل گیا۔ کیا دیکھتا ہوں ”میرا دوست باغیچے میں اکیلا بیٹھا ہے، وہ بھی سیگرٹ سلگائے بغیر”۔ اول تو میں نے آنکھیں پھاڑ کر خوب غور سے اسے دیکھا، جگہ بدل کر، جھک کر، بیٹھ کر سیگرٹ تلاشا، جب دونوں ہاتھوں کی انگلیاں خالی دِکھیں تو پوچھ بیٹھا۔ ”مرزا! خیریت تو ہے ناں آج سیگرٹ کے بغیر‘‘؟
اس نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔ ”ہاں یار! رمضان میں سیگرٹ نہیں پیتا”۔

میں نے دل ہی دل میں قہقہہ لگایا اور سوچنے لگا واہ گرمی! تیری کیا ہی شان ہے۔ سیدھے بھلے شخص کا دماغی توزان لڑکھڑاہٹ کا شکار ہے۔ اسے اب کون بتاتا کہ میاں! رمضان نہیں ہے۔ بلکہ تمھارے دماغ نے روزہ رکھ لیا ہے۔

اسی طرح ایک آدمی لوڈشیڈنگ پر حواس باختہ گھر میں شور مچا رہا تھا کہ بیوی نے کہا۔
”سنیے! شور ہی مچاتے رہیں گے یا جا کر بچوں کو بھی لائیں گے؟ گھڑی دیکھیں زرا، ڈیڑھ بجنے لگا ہے‘‘۔

صاحب سلامت موٹر بائیک نکال کر دوڑے کہ جا کر بچوں کو لے آؤں۔ بعد میں پتا چلا کہ گرمی کا ستایا وہ باپ کسی اور کے بچوں کو لے آیا تھا اور اسکول میں لوڈشیڈنگ سے تنگ گرمی کے ستائے بچوں کی بھی مت ماری گئی تھی؛ خبر ہی نہ ہوئی کہ جس کے ساتھ وہ جا رہے ہیں ان کا نہیں کسی اور کا ابا ہے۔

ایک بار کہیں خبر پڑھی تھ، لڑکی رشتے سے فقط اس لیے انکاری ہو گئی کہ لڑکے والوں کے ہاں جنریٹر اور یو پی ایس نہیں ہے۔ جب کہ لڑکے والے یقین دہانی کراتے رہ گئے، کہ لڑکا واپڈا میں ملازم ہے۔ گرمی کا اثر سفر کے دوران بھی اپنا رنگ دکھاتا رہتا ہے۔ کنڈکٹر کرایہ نہیں مانگتا یا پھر ایک ہی سواری سے ڈبل مانگ لیتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک دکاندار سے خریدار کو لڑتے دیکھا کہ بقایا کم دیے ہیں حالاں کہ اس نے چیز خرید کر پیسے ہی نہیں دیے تھے۔

میری دوست جو کہ ڈراموں کی دیوانی ہے۔ یوں سمجھیے جس دن ڈرامے کی کوئی قسط رہ جائے تو اس کی اداسی سے لگتا ہے جیسے کوئی قریبی عزیز فوت ہو چکا ہو۔ کچھ دن پہلے اس کا فون آیا۔

”یقینا ڈراما دیکھ رہی ہو گی؟”
میں نے حسبِ عادت پوچھا۔ جس پر اس نے کھلکھلا کر ہنسنا تھا اور پورے چھہ کٹھکوں پر مشتمل قہقہہ لگانا تھا۔ لیکن ہوا اُلٹ، میرا منہ تو کھلے کا کھلا رہ گیا جب اس نے کہا۔
”میں ڈرامے نہیں دیکھتی؛ دل چسپی نہیں”۔

تبدیلی کا سن کر کانوں کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ بدلاؤ کیسے؟ یہ تو ڈراموں کی دل دادہ تھی۔ دوبارہ سے لمبا سانس لے کر پوچھا:
’’کیا کہا؟ ڈرامے نہیں دیکھتیں‘‘؟
’’ہاں یہی کہا کہ نہیں دیکھتی۔ بجلی ہی نہیں ہوتی تو۔۔”

ایک اداس سا آوازہ سنائی دیا تھا۔ پھر وہ بولی:
’’یار! گھنٹوں بجلی غائب ہوتی ہے یہ ہمیں اتنی بجلی تو دیں کہ فون چارج کر کے ‘تبدیلی آئی رے’ لکھ کر پوسٹ کر سکیں‘‘۔

تفنن برطرف یہ بات قابل غور ہے کہ شدتِ گرمی سے بیش تر دماغوں کی تاریں ڈھیلی ہو جاتی ہیں۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ لوڈ شیڈنگ کے مارے لوگ پگلا جاتے ہیں اور گرمی کی برکت سے تقریبا ہر شخص جھنجلاہٹ کا شکار نظر آتا ہے۔ بعض اوقات تو لوڈشیڈنگ سے تنگ لوگ سٹھیائے ہوئے لگتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا اسی کی بدولت کیسے ہم گالیوں سے رطب اللسان رہتے ہیں؟ واپڈا والوں کو ننگی گالی دینا اپنا قانونی حق سمجھتے ہیں۔ بجلی آئی یا گئی، گالی کا ہیولا منہ سے اُڑتا ہوا فضا کو متعفن کر دیتا ہے۔ پورے ماحول پر کثافت چھا جاتی ہے۔ اور سنی ہوئی گالی کی کڑواہٹ کتنا ہی وقت دماغ کو سن رکھتی ہے۔

خیر! یہ باتیں بھی ہوتی رہیں گی۔ خبر ملی تھی نئے پاکستان کے بارے حاکم وقت نے اعلان کیا تھا کہ نئی حکومت بجلی و گیس کے نئے منصوبے بنائے گی۔ بجلی کی پیداوار بڑھا کر بجلی کی تنگی کا خاتمہ کرے گی۔ گزشتہ دنوں جب بجلی مزید مہنگی ہوئی تو میں نے بجلی کے ستائے اپنے دوست سے اس بارے بات کی تو وہ کہنے گا:

’’خدا کرے ایسا ہو جائے۔ بجلی کی کمی پوری کر لیں، وگرنہ لگتا مشکل ہے۔ کیوں کہ اس وقت بجلی کی کل طلب تقریباً 24 ہزار جب کہ پیداوار 18ہزار 400 میگاواٹ ہے۔ اور شارٹ فال 56 ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکا ہے۔ یہ امر حکومت کی فوری توجہ کا مستحق ہے۔”

میں نے تائید کرتے ہوئے کہا۔ خدا معلوم اب نئی حکومت مہنگی بجلی کا بم گرا کر کیا تبدیلی لانے لگی ہے۔ ہاں! سنا ہے نجی کمپنیوں کے ساڑھے بارہ ارب روپے کے واجبات ہیں۔ عین ممکن ہے اس کی ادائیگی کی جانے لگی ہو۔ پھر کہنے لگا:
’’اطمینان رکھو، گزشتہ حکومت نے بھی اعلانات کر رکھے تھے کہ 10/12 ہزار میگاواٹ بجلی مرکزی نظام کا حصہ بنا دی گئی ہے۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہاں گئی وہ بجلی جس کے اعلانات کر رکھے تھے؟ اور ہاں! مبارک ہو نئے پاکستان کی اس حکومت نے بھی ڈھیر سارے اعلانات کر رکھے ہیں‘‘۔

وہ چپ ہوا تو میں نے کہا۔ ’’او بھائی! اپنے ذہنی جنگ کے اسلحہ خانے کو ٹھنڈا رکھ اور دیکھ! دنیا کی سب بڑی حکمت عملی ہے ‘ویٹ اینڈ سی’۔ سو صبر رکھ۔ سوچ؛ حکومت بجلی کی کمی پوری کر لے تو..؟ تو کیا؟ اگر ایسا ہو گیا ناں تو پاکستانی قوم بجلی کی یاد میں عرس منائے گی‘‘۔
دوست نے پسینا صاف کرتے ہوئے لمبا سانس کھینچا اور مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’اور عین ممکن ہے کہ بجلی کی یاد میں اپنے بچوں کے نام بھی رکھ لے‘‘۔

بالفرض نئے پاکستان میں ایسا ہو گیا، آنے والے وقتوں میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو گیا، بجلی وافر مقدار میں حاصل ہو گئی۔ تو لوگ بجلی کی یاد میں بچوں کے کیا نام رکھیں گے؟ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ ہنستے ہوئے دوبارہ بولا:
’’چلو نام بھی بتا دیتا ہوں۔ نوٹ کر لو۔ لڑکوں کے نام ہوں گے۔ سیور بلوچ، میٹر خان، تار میمن، شیخ سٹیبلائزر، ڈیب فریزر بٹ، خواجہ سرکٹ شاہ اور لڑکیوں کے نام۔ فریج النسا، استری بیگم، واپڈا پروین، مس لو بیٹری، وائرنگ خانم۔ بلبو ماسی‘‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).