پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد پسندی


وہ سال تھا 1984 کا۔ سندھ مدرسہ الاسلام (ایس ایم سائنس) کالج کراچی کے عین مقابل کا گنجان علاقہ۔ وہیں جہاں مشہور و معروف روڈ کے کشادہ مضبوط سینے پر ہر لمحہ سینکڑوں گاڑیاں گزرتی تھیں۔ یہ اسی شہرِ کراچی کا ذکر ہے جس کی آغوش پاکستان کے ہر خطے سے آنے والے مختلف النسل، قوم،مذہب اور زبان بولنے والوں کو اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ وہیں ایک ذہنی توازن سے عاری بوڑھا راہگیر ان لڑکیوں کو فحش گالیاں دیتا ہوا پایا جاتا تھا کہ جن کے سر ڈھکے ہوئے نہیں ہوتے تھے، وہ جو مغلظات بکتا تھا یہ قلم اس کو بیان کرنے کا متحمل نہیں۔ لیکن اس وقت اس خبط الحواس شخص کی آواز کا ساتھ دینے والے نہ ہونے کے برابر تھے۔ تاہم وقت نے ثابت کہ آمریت کے اس دور میں ڈنڈے کے زور پر اسلام پھیلانے والوں نے وطن کی زمین میں اپنی جڑیں پھیلانی شروع کر دی تھیں۔پھر بتدریج پھیلتے مذہبی کٹر پن نے مسلم اور غیر مسلم شہریوں کے درمیان تعصب کی اس آگ کو خوب بھڑکایا۔ جس نے گزشتہ تین دھائیوں سے اقلیتی فرقوں کو اپنی لپیٹ میں کچھ اس طرح لیا ہے کہ پاکستان کی پینسٹھ سالہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اگر شیعہ کافر اور احمدی غیر مسلم قرار پائے ہیں۔تو باقی مذہبی اقلیتوں کا تو ذکر ہی کیا۔تشدد کی حالیہ فضا میں عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے فوج، پولیس اور قانونی ادارے دم سادھے بیٹھے ہیں اور بیوروکریسی کا تو کہنا ہی کیا کہ جس نے لیلائے وطن کو جاگیر داروں اور سامراجی دلالوں کی اقتدار کی ہوس کی بھینٹ چڑھا کر عزت کو تار تار کر دیا ہے۔


2012 میں شیعہ کمیونٹی کے 502 افراد محض ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے ہیں تو 2013 کا سورج بھی تیرہ بختی کا مژدہ لایا ہے۔ ابتداء چند ہفتوں میں دو حملوں (10 جنوری اور16 فروری) کے نتیجہ میں بلوچستان صوبہ کے ہزارہ برادری کے دو سو سے زیادہ افراد اور کئی سو زخمی ہوئے ہیں۔ ان دونوں حملوں کی ذمہ داری لشکرِ جھنگوی نے قبول کی۔
یہ ہر اک سمت پر اسرار کڑی دیواریں
جل بجھے جن میں ہزاروں کی جوانی کے چراغ
ہے ہر اک گام پہ ان خوابوں کی مقتل گاہیں
جن کے پرتوں سے چراغ ہیں ہزاروں کے دماغ
‹ (فیض احمد فیض)
16 فروری 2013 کو ہونے والا تازہ سانحہ دہشت گردی کے ان خون آشام واقعات کا تسلسل ہے جن کا شکار پاکستان میں بسنے والے اقلیتی فرقہ کے افراد ہیں۔ان میں شیعہ، احمدی، عیسائی، ہندو، سکھ، پارسی بہائی وغیرہ شامل ہیں۔ آج امام بارگاہوں، چرچ،احمدی مساجد اور مندروں پر حملے اور بم دھماکے قوم میں مسلسل جانی، معاشی اور جذباتی عدم تحفظ کا سبب بنتے ہیں۔
یوں تو دھشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے جس میں تشدد کا عمل کبھی کسی خاص گروہ کو ہجرت پر مجبور کرتا ہے ، جیسا کہ پندرہویں صدی میں اسپین کے عیسائیوں نے مسلمانوں اور یہودیوں کو ملک بدر کیا۔اور سولہویں صدی کے ایران میں سنیوں کو ہونے یا ملک بدر ہونے پر مجبور کیا تو کبھی نسل کشی کی صورت اختیار کرتا ہے۔


نسل کشی اکثریت کے ہاتھوں اقلیت کا بڑے پیمانے پر قتل کا عمل ہے اور پاکستان میں ہونے والی شیعہ نسل کشی کی طرح کی مثالیں ہمیں ماضی میں بھی ملتی ہیں مثلا ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کی نسل کشی یا 1990 میں بوزنیا میں دو لاکھ مسلمانوں کا عیسائیوں کے ہاتھوں قتل۔ پاکستان میں محض ہزارہ کے علاقہ میں ایک دھائی کے عرصہ میں ایک ہزار افراد مارے گئے اور دو لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
اقلیت کا لفظ پہلی بار پاکستان کے دستور میں بغیر کسی واضح تعریف کے شامل ہوا۔ تاہم فیڈرل حکومتوں میں اس کو مذہب کے حوالے سے ہی شمار کیا گیا۔ یعنی 75 فیصد سنی اکثریت کے مقابلے میں شیعہ بیس فیصد اور بقیہ پانچ فیصد مذاہب مثلا ہندو 1.8 فیصد، عیسائی 1.5 فیصد، احمدی 0.22 فیصد وغیرہ اقلیتوں میں شمار ہیں۔
یہ اقلیتیں ہمیشہ سے ہی پاکستان کی شہری تھیں۔ مگر پاکستان کی پیدائش سے آج تک کے عہد میں تعصب اور اقلیتوں کے خلاف تشدد نے شدت کی صورت اختیار کر لی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ظاہر ہے اس کا جواب سیدھا سادھا نہیں۔ یقینا اس کے محرکات کے کئی عوامل رہے ہوں گے مثلا غربت، جہالت، ترقی کی کمی، جاگیرداری نظام،سماجی اور سیاسی نظام، جغرافیائی حدود، تاریخ، ثقافت وغیرہ کہ جس نے نفرت کی نمو کے نتیجہ میں زہریلا ثمر اگایا۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا


اگر پاکستان کی تاریخ کے صفحات پلٹیں تو مذہب کی بنیاد پر حاصل ہونے والی اس مملکت کی آفزیشن میں جو خون خرابہ ہوا انسانی تاریخ میں اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ تقسیم کے وقت (1947) دونوں حصوں کی ہجرت ” بدترین خونی ہجرت ” قرار پائی۔ جس میں ہندو ،مسلمانوں اور سکھوں کی اموات کی تعداد پانچ لاکھ سے سات لاکھ پچاس ہزار کے درمیان تھی۔7500عورتیں زنابالجبر کا شکار ہوئیں اور لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کی گئی۔
حالانکہ 14 اگست 1947 سے تین دن پہلے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ بات واضح کی تھی کہ پاکستان کے خطہ کے تمام افراد اپنے مندروں، مساجد اور دوسری عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، اس کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں۔یہ حق انسانی اصول کی بنیاد پر تھا کہ ریاست کے تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں۔ تاہم پاکستان بننے کے بعد مولویوں اور پیروں کے گروہ نے پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا مطالبہ کیا۔ یوں 1951 میں سنی و شیعہ علما نے 23 نکاتی اسلامی ایجنڈے پر دستخط کیے۔ یہ علیحدہ بات کہ اس وقت وہ اس بات پر متفق نہیں ہو سکے تھے کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے۔ یہ اسی تحریک کا نتیجہ ہے کہ 1953 میں پنجاب میں مسلم لیگ لیڈروں کی قیادت میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی تحریک چلی جس میں ہونے والے فسادات میں کئی سو جانیں ضائع ہوئیں اور احمدیوں کی جائدادیں تلف کی گئیں۔
ابتدائی دستور کی دستاویز میں غیر مسلمانوں کو مذہبی امور کی انجام دہی کی آزادی حاصل تھی۔ جو 1956،1962 اور 1973 تک بھی قائم تھی۔ تاہم 1974 کی پاکستان کی پہلی جمہوری حکومت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی متزلزل حکومت کو بچانے اور سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل کے دباؤ میں آ کر اینٹی احمدیہ قانون نافذ کر دیا۔


مسخ ہوتی جمہوریت اور مذہبی رواداری کے تابوت پر اقلیتوں کے خلاف مضبوط کیل جنرل ضیا کی حکومت کے ہاتھوں اسلامائزیشن کی صورت ٹھونکی گئی۔ 1977 میں جمہوری حکومت کا خاتمہ کرنے کے بعد سید ابوالاعلی مودودی کی طرزِ فکر پر ” اسلامی نظام کی بنیاد رکھتے ہوئے ضیا نے فرمایا ” مجھے اﷲ کی طرف سے یہ مشن سونپا گیا ہے کہ پاکستان میں اسلامی احکامات نافذ کروں ” اس طرح قائد اعظم کے سیکولر ریاست کے برخلاف 1979 میں حدود آرڈیننس اور 1984 میں دیت (عورت کی آدھی گواہی) کا آرڈیننس قانون کا حصہ بنا۔ واضح رہے کہ اس قانون کے بعد کے سالوں میں عزت کے نام پر اپنے ہی گھر والوں کے ہاتھوں عورتوں کے قتل کے واقعات میں ایک دم (اضافہ) ہو گیا۔ اور مجرم قاتلوں کے خلاف عدلیہ کا رویہ نرم تھا۔
1984 میں ہی احمدیہ گروپ کے خلاف ایک اور قانون پاس ہوا، جس کے تحت ان پر اپنی مذہبی و سماجی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہو گئی اوراب وہ اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کا نام نہیں دے سکتے تھے۔ 1985 میں پاکستان کی اقلیتوں کے خلاف ایک اور حربہ ان کو ملکی الیکشن کے بنیادی حق سے علیحدہ کرنا تھا۔ (اگرچہ اس قسم کا تفریقی قانون 1956 میں منسوخ ہو چکا تھا)جس کے تحت غیر مسلم علیحدہ ووٹرز قرار دیئے گئے اور وہ اسمبلیوں کے لیے محض غیر مسلم امیدوار کو ہی منتخب کر سکتے تھے۔ اس طرح انہیں عام الیکشن میں حقِ رائے دہی سے محروم کر دیا گیا۔
1986 میں ہی توہین ناموس رسالت کا قانون پاس ہوا۔ جس کی وجہ سے غریب اور محکوم اقلیتوں پر بہتان لگانے والوں میں اضافہ اور غلط سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔ واضح ہو کہ یہ تمام کیسز شریعت کورٹ میں پیش ہوئے اور فیصلے بھی وہیں صادر ہوئے۔

جنرل ضیا الحق کا دس سالہ دورِ حکومت
1988 میں فضائی حادثہ میں ختم ہونے والے ضیا الحق کی حکومت کے متعلق تاریخ دان متفق ہیں کہ اس دوران پاکستان میں تنگ نظری، اقلیتوں کے خلاف مذہبی تعصب، افغانستان سے غیر قانونی نشہ آور ڈرگ اور تشدد پسند مسلح جہادیوں کے گروپ کے کلچر نے فروغ پایا۔
1980 کی دھائی میں سوویت یونین کے خلاف لڑی جانے والی افغان جنگ میں کہ جس میں افغانستان کا ساتھ پاکستان اور امریکہ نے بھرپور انداز میں دیا، مسلح جہادی گروپوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ان گروپس کی تعداد مشروموں کی طرح بڑھ چکی تھی۔ اور ان کی فنڈنگ کا ایک اہم ذریعہ سعودی عرب کی حکومت تھی۔ ان جماعتوں کا گزشتہ تین دھائیوں میں پاکستان کے سیاسی اور سماجی نظام میں بھرپور عمل دخل رہا ہے۔ اور ہر سطح اپنے قدم جمانے کا کام بہت منظم انداز میں کیا گیا ہے۔ مثلا تعلیمی نظام میں نصاب کے ذریعہ اقلیتوں کے خلاف خلاف خاص تعصب اور تفرقہ پیدا کرنا کہ جو ایک اہم ترین ہتھیار ثابت ہوا اور تحقیق نے ثابت کیا کہ پہلی سے کالج کی سطح کے نصاب نے ہماری نسلوں میں کس قدر تعصب اور نفرت کا زہر گھولا۔ پاکستان کا حالیہ مسلح مذہبی تشدد جو اقلیتوں بالخصوص شیعوں کے ساتھ روا ہے ، اس کا متقاضی ہے کہ ان جہادی تنظیموں تفصیل بیان کی جائے کہ جو قتل و غارت گری میں ملوث ہیں۔


پاکستان کے جارحانہ پرتشدد اسلامی گروپ پر مشہور تحقیق دان ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے 4فروری 2013 کو ایک تفصیلی مقالہ چھپا ہے۔ سینٹر فار انٹرنیشنل اینڈ اسٹریٹجک انالیس() یعنی () کے تحت چھپنے والی اس تحقیق میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے جنوبی شمالی اور وسطی علاقہ میں مسلح جارحیت کا جائزہ لیا ہے اور پنجاب کے جہادی گروپس کی تفصیل لکھی ہوئی ہے۔ مصنفہ کے مطابق 1980 کی افغان جنگ اور افغان طالبان کے ساتھ لڑنے والے پنجابی جہادیوں کی جنگ پرانی ہے جو اس جنگ کے بعد انڈیا کشمیر، بوزنیا، چیچنیا اور دوسرے مقامات پر لڑنے چلے گئے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2