عمران خان سیاسی سپر مین بننے کی کوشش نہ کریں


وزیر اعظم عمران خان نے آج وزیر اعظم ہاؤس میں میڈیا کے نمائیندوں سے ملاقات کے دوران آزاد میڈیا کی اہمیت پر زور دیا۔ نیوز پرنٹ پر پانچ فیصد ڈیوٹی کم کرنے کی نوید بھی سنائی اور یہ اعلان بھی کیا کہ میڈیا پر سرکاری اشتہارات میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ میڈیا کی خود مختاری اور مالی مشکلات کے حوالے سے جب وزیر اعظم میڈیا مالکان کے نمائیندوں سے یہ دلفریب باتیں کررہے تھے تو اسلام آباد ہی کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نیا پاکستان کے نام سے ایک ویب ٹی وی کے مالک اور پروڈیوسر کو عدالت کی توہین پر مبنی مواد نشر کرنے کے الزام میں جوڈیشل ریمانڈ پر قید کرنے کا حکم دے رہی تھی۔ کسی جمہوری حکومت کے دور میں جس کا سربراہ یہ اعتراف بھی کرتا ہو کہ وہ میڈیا کی اعانت اور صحافیوں کی حوصلہ افزائی ہی کی وجہ سے یہ سیاسی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہؤا ہے، اگر ملک کی انسداد دہشت گردی کی عدالتیں یہ طے کریں گی کہ میڈیا کو کیسا رویہ اختیارکرنا چاہئے تو آزادی کی تفہیم یا حکومت کے حقیقی ایجنڈے میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی تضاد ضرور موجود ہے۔

ملک میں انسداد دہشت گردی کی عدالتیں دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لئے فوری فیصلے کرنے اور دہشت گردوں کا خوف ختم کرنے کے لئے قائم کی گئی تھیں۔ ان عدالتوں نے نہ کبھی سرعت سے فیصلے کئے اور نہ ہی دہشت گردی کی حوصلہ شکنی کا مقصد پورا ہو سکا۔ البتہ پاکستان کے غیر واضح اور پیچیدہ عدالتی نظام میں ان عدالتوں کو عام مجرموں ، سیاست دانوں اور صحافیوں کے خلاف استعمال کرنے کی روایت ضرور قائم کی جاتی رہی ہے۔ عمران خان خود بھی اس قسم کے مقدمات کا سامنا کرچکے ہیں۔ اگرچہ ’عوامی مقبولیت‘ اور ہمہ وقت شاہی کرنے والے عناصر کی سرپرستی کی وجہ سے نہ وہ کبھی عدالتوں میں پیش ہوئے اور نہ ہی کسی نے انہیں پکڑ کر انسداد دہشت گردی عدالت کے کسی جج کے سامنے پیش کیا تاکہ وہ ان ’جرائم ‘ کا جواب دیتے جو 2014 کے دھرنے کے دوران ان سے سرزد ہوئے تھے۔

بدنصیبی سے ملک کا کوئی صحافی بھی نہ عمران خان جیسی طاقت رکھتا ہے اور نہ ان کی طرح قسمت کا دھنی ہے۔ اس لئے الزام عائد ہونے کی صورت میں اسے عدالت میں پیش بھی ہونا پڑتا ہے اور جرم ثابت ہوئے بغیر جیل بھی جانا پڑتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کچھ صحافی اور اینکر یا میڈیا مالکان نیا پاکستان نامی ویب ٹی وی کے مالک اور پروڈیوسر سے زیادہ ’بااثر‘ ہوں اور حکومت یا اس کے سرپرست انہیں جیل بھیجنے سے پہلے بہت بار سوچنے کی زحمت کریں لیکن حرف لکھنے یا نشر کرنے والے کسی بھی ادارے سے تعلق کی بنا پر اگر انسداد دہشت گردی کی کوئی عدالت آج نامعلوم اور کم جانے جانے والے صحافیوں کو قید کرسکتی ہے تو یہ صورت حال بزعم خویش ’طاقتور‘ ہونے کا دعویٰ کرنے والے میڈیا مالکان اور ان کے وابستگان کے لئے وارننگ کی حیثیت رکھتی ہے۔

گزشتہ چند ماہ میں ہی یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک کے بعد دوسرے میڈیا ہاؤس نے ان تمام شرائط کو مان لیا ہے جو خفیہ اداروں کے نمائیندوں کے ساتھ ملاقاتوں میں ان کے سامنے رکھی جاتی ہیں۔ یہ شرائط حب الوطنی اور قوم پرستی کے سنہری اصولوں پر ہی استوار ہوتی ہیں لیکن ان شرطوں کو سن کر اپنے رپورٹر، نیوز جرنلسٹ یا اینکر زکو ایک خاص ڈھب سے بات کرنے کا پابند کرنے والے مالکان میڈیا کی آزادی پر وار کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ آج اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں قید ہونے والے دو میڈیا مالکان کے برعکس ’طاقتور‘ میڈیا مالکان خود یا اپنے نمائیندوں کے ذریعے وزیر اعظم سے ملاقات کا شرف حاصل کررہے تھے اور اشتہارات کی بحالی کے علاوہ نیوز پرنٹ پر محصول میں رعایت کا پیغام سن کر خوشی کا اظہار کررہے تھے۔ ایسی ملاقاتوں سے میڈیا کی آزادی کی بارے میں کسی خیر کی امید کرنا عبث ہے جہاں مالکان ہی ’ایڈیٹروں‘ کے بھیس میں وزیر اعظم کے ساتھ مل بیٹھتے ہوں ۔

نیا پاکستان ویب ٹی وی کے مالک اور پرڈیوسر کو فیصل رضا عابدی کے خلاف قائم توہین عدالت کے مقدمہ کے سلسلہ میں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا ہے۔ ان دونوں کو عدلیہ کے خلاف اشتعال انگیز باتوں کو نشر کرنے کا ملزم قرار دیا گیا ہے۔ فیصل رضا عابدی کے خلاف دائر ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’ پروگرام کے دوران ملزم نے مجرمانہ اور بدنیتی کی بنیاد پر کسی قانونی اختیا رکے بغیر چیف جسٹس کے خلاف طنزیہ، توہین و حقارت آمیز زبان استعمال کی۔ اس طرح اس نے حکومت اور عوام میں خوف و ہراس اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بادی النظر میں یہ جرائم الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ مجریہ 2016 کے سیکشن 10 اے، 11 اور 20 کے تحت قابل گرفت ہیں۔ ملزم پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 109 اور 509 کا اطلاق بھی ہوتا ہے‘۔ اگرچہ یہ الزام فیصل رضا عابدی پر عائد ہیں لیکن انہیں نشر کرنے کے جرم میں میڈیا سے وابستہ دو افراد کو انسداد دہشت گردی عدالت نے قید کرنا ضروری سمجھا ہے۔ اس بات کا فیصلہ سپریم کورٹ کے علاوہ حکومت کو بھی کرنا ہے کہ جمہوری معاشرہ کی حوصلہ افزائی اور آزادی اظہار کے آئینی حق کا تحفظ کرتے ہوئے تقریر و تحریر کی کس قدر آزادی دی جاسکتی ہے۔

 جدید عہد میں جمہوریت کے جس تصور کو قبول عام حاصل ہے ، اس کے مطابق آزادی تحریر و تقریر پر کوئی قدغن قبول نہیں کی جاسکتی ۔ البتہ میڈیا سے وابستہ کوئی بھی شخص اگر ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے خلاف مناسب کارروائی کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ تاہم تحریر و تقریر کی آزادی کو ان جرائم کی فہرست میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور سے اگر استغاثہ کسی تیسرے فرد کے جرم کا سزا وار ایک ایسے میڈیا کو قرار دینے کی کوشش کرے جو اسے صرف نشر کرنے کا بنیادی جمہوری حق استعمال کررہا تھا۔ اس ایف آئی آر میں خوف، ہیجان اور اضطرار پیدا کرنے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ ملک میں اس وقت سیاست اور عدالت نے جو شکل اختیار کررکھی ہے اس میں یہ کام تو منتخب لیڈر اپنے بے بنیاد بیانات اور اعلیٰ عدالتوں کے جج پراسرار اور ناقابل فہم آبزرویشنز کے ذریعے بھی کرتے ہیں۔ حال ہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت عزیز صدیقی کو آئی ایس آئی کے خلاف بے بنیاد تقریر کرنے کے جرم میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے فارغ کیا ہے۔ مقدمات کی سماعت کے دوران اگر ان سابقہ جج صاحب کے اقلیتوں کے بارے میں تبصروں اور احکامات کو دیکھا جائے ، تو ان سے سوائے خوف کے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا تھا ۔لیکن سپریم جوڈیشل کونسل نے متعلقہ جج کے اس رویہ کو ججوں کے ضابطہ اخلاق کے خلاف نہیں سمجھا۔

میڈیا کی آزادی کے حوالے سے مقدمہ بہت سیدھا ہے کہ لکھے اور کہے جانے والے لفظ پر گرفت کرنا جمہوریت کے علاوہ ملکی آئین کی ضمانتوں کے خلاف ہے۔ کجا تحریر و تقریر پر قدغن سے متعلق قانون کو من چاہی توضیح کے مطابق استعمال کرتے ہوئے ایسی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں جوملک میں دہشت گردی کی روک تھام کے لئے قائم کی گئی ہیں۔ یہ اقدام دراصل خوف و ہراس پیدا کرنے کی تشریح پر پورا اتراتا ہے۔وزیر اعظم سے میڈیا کے جس وفد نے ملاقات کی اس میں کونسل آف مدیران اخبارات، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائیٹی اور پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے نمائیندے شامل تھے۔ یہ لوگ اگر حقیقی معنوں میں میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتے اور اس ملک میں حرف کی حرمت کے لئے جد و جہد کا حوصلہ کرتے تو وہ وزیر اعظم سے نیوز پرنٹ پر محصول میں رعایت اور اشتہاروں کی ضمانت حاصل کرنے کی بجائے یہ مطالبہ سامنے لاتے کہ صحافیوں اور میڈیا مالکان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمے قائم کرنے کا سلسلہ بند کیاجائے۔

اسی طرح وزیر اعظم اخباروں اور ٹیلی ویژن پر شائع و نشر ہونے والے سرکاری اشتہارات پر اگر حکومتی اختیار ختم کرکے ان کی تقسیم کسی خود مختار اور پروفیشنل ادارے کے حوالے کرنے کی بات کرتے تو ان کی جمہوریت پسندی کا بہتر چہرہ سامنے آتا۔ لیکن اس ملاقات میں یہ سننے اور دیکھنے کو نہیں ملا ۔ کیوں کہ عمران خان جس حکومت کی سربراہی کر رہے ہیں وہ کسی دوسرے معاملہ کی قیادت کرنے کے قابل ہو یا نہ ہولیکن وہ میڈیا کے خلاف پابندیاں لگانے اور صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کا کام بڑی دیدہ دلیری سے کر رہی ہے۔ عمران خان کو یاد رکھنا چاہئے کہ ملک میں میڈیا کے خلاف خوف اور استحصال کی فضا پیدا کرنے کا جرم ان کے نامہ اعمال میں سر فہرست درج ہوگا۔

وزیر اعظم عمران خان نے اس ملاقات میں ملک کی معیشت ، سابقہ سیاست دانوں کی بدعنوانی اور اپوزیشن کے خوفزدہ ہونے کے بارے میں بہت سی ایسی باتیں کہی ہیں جن کی گرفت ہونا بے حد ضروری ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے معاملہ پر عمران خان نے ایک بار پھر بے یقینی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور کہا ہے کہ دوست ملکوں سے معاملات طے ہو رہے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ حکومت عالمی مالیاتی فنڈ کے پاس نہ جائے۔ اگرجانا بھی پڑا تو پاکستان آئی ایم ایف کی سخت شرائط قبول نہیں کرے گا۔ یہ دونوں باتیں مضحکہ خیز اور عمران خان کے قوم سے پہلے خطاب کے دوران کئے گئے وعدہ کے برعکس ہیں۔ عمران خان کو بتانا چاہئے کہ کون سا ایسا دوست ملک ہے جو سود اور سیاسی مراعات کے بغیر پاکستان کو قرض دے گا۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی کون سی شرائط ہیں جو حکومت ماننے سے انکار کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ وزیر خزانہ نے تو آئی ایم ایف کو درخواست دینے سے بہت پہلے منی بجٹ میں محاصل اور ٹیکس بڑھا کر عالمی فنڈ کے ماہرین کو قائل کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا تھا۔

عمران خان نے آج پھر چھے ماہ میں ملک کو مالی مشکلات سے نکالنے کا اعلان کرتے ہوئے اپوزیشن کو چوروں کا ٹولہ قرار دیا ہے جو جیل جانے کے خوف سے حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کررہی ہے۔ ملک کی منتخب اپوزیشن قیادت کے بارے میں قائد ایوان کا یہ رویہ غیر جمہوری اور بنیادی اخلاقی اقدار سے گرا ہؤا ہے۔ عمران خان کو جھوٹ کا سہارا لینے کی بجائے اب لوگوں کے علاوہ خود سے بھی سچ بولنے کا آغاز کرنا چاہئے۔ پاکستان جن مالی ، سیاسی اور سفارتی مسائل کا سامنا کررہا ہے انہیں چھے ماہ کی قلیل مدت میں حل کرنا کسی بھی لیڈر کے بس میں نہیں ہے۔ عمران خان کسی طرح وزیر اعظم تو بن گئے لیکن وہ اپنے اختیار سے زیادہ دعوے کرکے سیاسی سپر مین بننے کی کوشش نہ کریں ورنہ انہیں منہ کے بل گرتے دیر نہیں لگے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali