ایڈز میں مبتلا ایک پاکستانی اداکارہ کی کہانی


پاکستان میں ایڈز کے پھیلاؤ میں ایک رکاوٹ پاک بھارت تنازعات بھی ہیں۔ اگر دونوں کے درمیان تعلقات اچھے ہوتے اور ویزا کا حصول آسان ہوتا تو یقین کریں اور کچھ ہوتا یا نہ ہوتا ہمارے ہاں ایڈز کے مریضوں کی تعداد خطرناک حد تک پہنچ چکی ہوتی۔ آپ چونکہ بازار حسن جیسے موضوع پر ریسرچ کر رہے ہیں اس لئے آپ بات کا بھی پتہ چلانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے ملک میں کتنے فیصد اوباش فیملی پلاننگ پراڈکٹس استعمال کرتے ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق ہمارے ہاں کی طوائف خاصی سمجھدار ہے اور وہ کوئی خطرہ مول نہیں لیتی۔ “

”جی! آپ درست فرماتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بازار حسن میں موجود طوائفیں ایچ آئی وی ٹیسٹ نہیں کرواتیں اور اس میں کرپٹ میڈیکل سٹاف کا بھی قصور ہے۔ “
”میرا بھی یہی خیال ہے کہ سرکاری ہسپتال کے عملے کو اس بات کا پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ بازار حسن میں رہنے والی خواتین کا ہر تین ماہ بعد ایچ آئی وی ٹیسٹ کریں۔ “

میں کچھ دیر ذکاء اللہ کے پاس بیٹھا اور پھر اجازت لے کر ہسپتال سے ہوٹل کی جانب چل بڑا۔ کچھ دن بعد بازار حسن لاہور میں میری ایک ایسی طوائف سے ملاقات ہوئی جو ایڈز جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو کر انتہائی بے بسی کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ وہ کبھی خوبصورت ہوا کرتی تھی لیکن ایڈز نے اسے زندگی کی ہر خوبصورتی سے محروم کر دیا تھا۔ وہ جینا بائی تھی اور محض 30 برس کی عمر میں 60 کی لگتی تھی۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ کس نے اسے اس مرض میں مبتلا کیا۔ جینا بائی کے کوٹھے پر اب کوئی اور اڈہ لگائے بیٹھی ہے جب کہ جینا بائی موت کے انتظار میں سانسوں کو گن رہی ہے۔

کتاب ”عورت اور بازار“ سے اقتباس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3