راوی کا جسڑ پل، ڈیشنگ سیکنڈ لفٹننٹ اور کالا پٹھان



سن 1967 کے آخر کی بات ہے ایک دن ہماری یونٹ بیس بلوچ کے چند افسر دوپہر کے کھانے کے بعد میس میں بیٹھے خوش گپیوں میں مشغول تھے۔بات چھڑی یونٹ میں افسروں کی کمی اور کام کی زیادتی کی۔ لفٹننٹ زاہد یاسین (بعد میں میجر’ ستارۂ جرأت اور اب مرحوم) کہنے لگے قرائن کے مطابق اکیڈیمی کی اگلی پاسنگ آؤٹ پر ہماری یونٹ میں ایک نیا افسر آنا چاہئے خدا کرے کوئی گٹس والا ہو۔ (65 کی جنگ کے واقعات ابھی سب کے ذہنوں میں تازہ تھے اور بہادری پر زور تھا) یہ سن کر سب نے دلچسپی لی۔ میجر خضر جو خود بھی اتھلیٹ تھے کہنے لگے یونٹ کی باقی ٹیمیں تو تسلی بخش ہیں اتھلیٹکس میں کمزوری ہے اللہ کرے اچھا اتھلیٹ ہو جو یونٹ کے اتھلیٹس کو سنبھال لے اور مقابلوں کے دن ہمیں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔۔ اسی طرح لفٹننٹ گیلانی نے ہاکی ٹیم کی زبوں حالی پر روشنی ڈالتے ہوئے اللہ کے حضور ایک ہاکی پلیئر سیکنڈ لفٹننٹ کی التجا کی۔ میجر خاصم بولے میری تو تمنا ہے عزیز بھٹی جیسا کوئی جری جوان ہو جو آل راؤنڈر ہو پروفیشن میں بھی کھیلوں میں بھی اور انسانیت میں بھی ممتاز ہو۔ ہمیں اکٹھے نوکری کا موقع ملا ہے۔ واہ کیا افسر تھا ! میجر راجہ آزاد کیانی جو کافی دیر سے خاموش بیٹھے سگریٹ نوشی پر توجہ مرکوز کیئے ہوئے تھے ایک لمبا کش لے کر دھوئیں کے گول گول مرغولے چھوڑتے ہوئے بولے یارا یہ سب ٹیمیں شیمیں چلتی رہتی ہیں سال میں ایک آدھ دن ان کا نمبر آتا ہے۔ دعا کرو کوئی گورا چٹا پرسنیلیٹی والا لڑکا ہو۔ اس پر سبھی ہنس پڑے۔ أپ سیریس رہ کر بولے ہاں ہاں میں صحیح کہہ رہا ہوں۔ اب دیکھ لو جو سینئر آفیسر یونٹ میں آتا ہے وہ سب سے پہلے شمَّس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور حال احوال پوچھتا ہے۔اس سے یونٹ کی بھی عزت بڑھتی ہے۔ شمَّس یعنی لفٹننٹ شمس سوا چھ فٹ کے لمبے تڑنگے کشمیری جوان حسن ابدال کے پڑھے ہوئے باسکٹ بال کے آرمی لیول کے پلیئر واقعی ایک جاذب نظر پرسنیلیٹی تھے۔ بعد میں بریگیڈئیر ہوئے اور ڈی جی رینجرز رہے۔ بعض حاضرین نے اختلاف بھی کیا اور اندرونی خوبیوں پر زور دیا لیکن میجر کیانی سنجیدگی سے اپنی بات پر اڑے رہے اور گورے رنگ سے اتر کر ‘صاف رنگ’ تک بھی نہ آئے۔ اس سے پہلے کہ آپ بخالِ ہندواش بخشم سمرقند و بخارا را تک پہنچتے ایڈجوٹنٹ نے آکر سی او کانفرنس کا اعلان کیا اور سبھی افسر وں کو اپنی اپنی پڑ گئی۔

میجر کیانی نے گورے رنگ کی اہمیت پر کچھ اتنا زور دیا تھا کہ ہم کچھ جھینپ سے گئے۔ کیونکہ ہمارا رنگ قدرے کم واقع ہوا ہے۔ اتنا بھی نہیں۔ سکول کے کوئی فارم بھرتے ہوئے ہمارے ایک قابل استاد نے ہمارا رنگ ویٹش یعنی گندم گوں لکھا تھا۔ ہم اسی پر قائم ہیں۔ بعض بدخواہ اسے پکا بھی کہتے ہیں۔ نہ جانے کونسی زبان کا لفظ ہے اور اس کا کیا مطلب ہے۔ ہم تو قول کے پکے ہیں اور ویٹش پر ہی قائم ہیں۔

بات آئی گئی ہوگئی۔ ہمیں ایک کورس پر کوئٹہ جانا ہوا۔ وہیں اطلاع ملی کہ یونٹ میں ایک نیا افسر اکیڈیمی سے پوسٹ ہوا ہے جو پٹھان ہے۔ ایک دم سے مجھے میجر کیانی والی بات یاد آکئی اور میں نے انہیں دعا کی قبولیت پر مبارک کا پیغام بھیجا اور لطیفے کے طور پر یہ واقعہ وہاں کورس پر بھی سب افسروں کو سنایا۔ سب خوب ہنسے۔

مئی 68 کےجس دن ہم کورس ختم کر کے وااپس سیالکوٹ پہنچے ہمیں بتایا گیا کہ یونٹ کے ایک افسر کو سانپ نے ڈس لیا ہے اور وہ سی ایم ایچ میں ہے اور یہ کہ اس رات ہمآری ڈیوٹی لگائی گئی ہے اس کی نگہداشت پر۔ استفسار پر پتہ چلا کہ وہ نئے سیکنڈ لفٹننٹ حفیظ ہیں۔ مجھے صدمہ ہوا اور خیال آیا کہ ہمارے گورے افسر کو نظر ہی لگ گئی۔ جب ہم ہسپتال پہنچے تو آئی سی یو میں آکسیجن ٹنٹ میں ایک سیاہ فام جوان کو پڑے پایا۔ ایک جھٹکا سا لگا۔ دوبارہ غور سے دیکھا۔ خیال آیا مجھے غلط کمرہ یا بیڈ تو نہیں بتایا گیا۔ دوبارہ نرس سے رابطہ کیا تو پتہ چلا یہی ہمارے پٹھان افسر ہیں۔ حیرت ہوئی۔ پٹھان بھی کالے اور اتنے کالے ہوتے ہیں! پھر سوچا ایک طوری قبیلہ بھی تو ہے جس کا مطلب ہی سیاہ ہے۔ شاید نام ہی اسی وجہ سے پڑا ہو۔ بہر حال رنگ سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اخلاق اور قابلیت ہونی چاہئیے۔ اور میجر کیانی بھی اس دوران میں یونٹ سے پوسٹ آؤٹ ہوچکے تھے۔ اب تو بالکل کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اس رات ڈاکٹرز کے راؤنڈ بھی لگتے رہے اور وہ مجھے بھی تسلی دیتے رہے۔ سسٹرز بھی موجود تھیں اور نرسنگ سپاہی بھی۔ میری موجودگی محض یونٹ افسر کی ہمدردی اور ‘بے بی آف دی بٹالین’ کی خاص دیکھ بھال کے طور پر تھی۔ کچھ دیر بعد حفیظ کو کچھ ہوش بھی آگیا اور مجھے تسلی ہوگئی۔

صبح میں حفیظ کو سویا ہوا لیکن تسلی بخش حالت میں چھوڑ کر آگیا۔ ایک دوسرا افسر بھی دن کی ڈیوٹی کے لئے آگیا تھا۔ اگلے چند دن بلکہ دو ہفتے مجھے کسی ڈیوٹی پر جانا پڑا۔

سانپ ڈسنے کے واقعہ کی تفصیل یوں تھی کہ یونٹ کی ایک کمپنی جس کے کمانڈر کیپٹن زاہد یاسین تھے جسڑ پل پر بارڈر ڈیوٹی پر تھی۔ حفیظ کو یونٹ پہنچنے پر اس کمپنی میں بطور کمپنی آفیسر بھیجا گیا تاکہ بارڈر ایریا سے بھی واقفیت ہو جائے اپنے جوانوں سے بھی اورر زاہد جیسے قابل افسر سے بھی مستفید ہو سکے۔ جسڑ پل نارووال کے قریب عین بارڈر پر دریائے راوی پر واقع ہے۔ دوسری طرف انڈیا کا شہر ڈیرہ نانک ہے۔ آزادی سے پہلے ریل اور سڑک دونوں اس پل سے گزرتی تھیں۔ بعد میں دونوں متروک ہوگئیں۔ پینسٹھ کی جنگ میں اس پل کا ایک ستون بارود سے اڑا دیا گیا تھا۔ لیکن سٹیل گرڈروں سے بنا پل اس قدر مضبوط اور بھاری تھا کہ بجائے اڑنے کے ایک ‘وی’ کی شکل میں ستون کے بقیہ حصے پر ٹک گیا تھا۔ یوں کہ اوپر سے ہلکی ٹریفک با آسانی گزر سکتی تھی۔ بھاری ٹریفک کو گزارنے کا تجربہ نہیں کیا گیا لیکن میرا خیال ہے چند ایک ٹینک تو آہستہ آہستہ چلا کر گزارے جا سکتے تھے۔ اس پل کی دوسری طرف چند مربع میل کا علاقہ پاکستان میں تھا۔ بارڈر پر تو رینجرز تعینات تھے پل فوج کی زیرنگرانی تھا۔ کمپنی کی ایک پلاٹون (نفری قریباً پینتیس) پل کے دوسرے کنارے پر تعینات تھی اور باقی کمپنی پل کے اسطرف۔ حفیظ کو پار کی پلاٹون کا کمانڈر بنایا گیا۔

دریا کے دونوں طرف کا علاقہ جنگلی گھاس سے ڈھکا ہوا تھا۔ پل کے عین نیچے کچھ جگہ صاف رکھی گئی تھی جہاں رہائشی ٹنٹ اور لنگر کی جگہ تھی۔ حفیظ کا ٹنٹ ذرا ہٹ کر مناسب فاصلے پر لگا تھا۔ ساتھ ہی باتھ ٹنٹ بھی لگایا گیا تھا۔

شام کے ‘سٹینڈ ٹو’ سے فارغ ہو کر حفیظ اپنے ٹنٹ میں چلا گیا۔ بیٹ مین نے پانی کی بالٹی بھر رکھی تھی اور باتھ ٹنٹ میں ایک لالٹین بھی رکھی تھی۔ باتھ ٹنٹ کی اونچائی اتنی ہوتی ہے کہ آپ جھکے جھکے ہی کھڑے ہوسکتے ہیں۔ اس حالت میں جب حفیظ اوپر کے جسم پر صابن لگا رہا تھا تو اسے محسوس ہوا کہ کوئی چیز اس کے بائیں پاؤں پر چڑھی ہے۔ لالٹین کی روشنی میں ایک چھوٹا زہریلا سانپ نظر آیا جو پاؤں سے آگے کھوج لگانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس پر حفیظ بالکل ساکن ہوگیا۔ گویا ‘پاز’ کا بٹن دب گیا۔ سانپ نے اوپر چڑھنا شروع کر دیا۔ ٹخنے سے ہو کر پنڈلی اور وہاں سے ران تک پہنچا۔ حفیظ ساکن رہا۔ (یہاں اس کے اعصاب کی داد دینا پڑتی ہے )۔ وہاں سے سانپ نے کسی وجہ سے مونہہ موڑا (بعضوں کا کہنا ہے شرما کر ) اور اسی راہ سے واپس روانہ ہوا۔ جب ٹخنے سے نیچے اترا تو اب حفیظ مزید صبر نہ کر سکا اور اس نے تیزی سے پاؤں پیچھے ہٹایا لیکن سانپ بہت ہی تیز نکلا۔ وہ پلٹا اور حفیظ کے ٹخنے سے لپٹ کر ڈس گیا۔ حفیظ کے پاس نہانے کے ٹنٹ میں کوئی ہتھیار از قسم سوٹی وغیرہ تو تھا نہیں۔ اس زمانے میں پانی انڈیلنے کے مگ جستی ہوا کرتے تھے۔ اسی سے کچھ ضربیں لگائیں۔ پر قرائن بتاتے ہیں کہ مجرم موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا اور حفیظ تولیہ لپیٹ کر باہر آگیا۔ چلانا یا کسی کو مدد کےلئے بلانا افسرانہ وقار کے خلاف سمجھا۔ ایک سٹول پر بیٹھ کر بیٹ مین کو کہا کہ سانپ کاٹے کی کٹ لاؤ۔ یہ کٹ ہر جوان کے پاس ہوتی ہے اور ایک عدد بلیڈ اور ایک تسمے پر مشتمل ہوتی ہے۔ تسمے سے مقام گزیدن سے دل کی طرف کس کر گرہ دے دی جاتی ہے اور بلیڈ سے چیرہ دیا جاتا ہے کہ دبا دبا کر زہر کو باہر نکالا جائے۔ اتنے ‘پختہ’ بندوبست کرنے کے ساتھ ہی سیکنڈ لفٹننٹ صاحب نے حکم دے دیا کہ خبردار کیپٹن صاحب کو آگاہ نہییں کرنا مبادا وہ پریشان ہوں۔ معمولی بات ہے سب ٹھیک ہے۔

پلاٹون حوالدار محمد خان پرانا سپاہی تھا۔ اس نے صورت حال کو بھانپ لیا اور خاموشی سے اپنے ٹنٹ میں جا کر فون گھمایا اور کیپٹن زاہد کو اطلاع دے دی۔ اتفاق کی بات کہ وہاں یعنی کمپنی ہیڈ کواٹر میں موجود واحد گاڑی ایک ایمبولنس جیپ صرف آدھا منٹ پہلے کسی وجہ سے کیپٹن زاہد سے اجازت لیکر سیالکوٹ روانہ ہوئی تھی۔ زاہد نے انتہائی سرعت سے صورت حال کا اندازہ لگا لیا اور بجلی کی سی تیزی سے جست لگائی اور خود جیپ کے پیچھے دوڑ کر اسے تھوڑے ہی فاصلے پر راستے کی بجائے ایک بند کے اوپر سے شارٹ کٹ مار کر جا لیا۔

زاہد نے خود جیپ سنبھالی اور بھگاتے ہوئے ٹوٹی پل پر سے گزار کر پار پہنچے۔ ابتدائی امداد کا جائزہ لیا حفیظ کو جیپ میں لٹایا۔ حوالدار محمد خان کو جو آرمی لیول کا پہلوان تھا ساتھ بٹھایا اور حکم دیا کہ صاحب کو سونے نہیں دینا۔ بلکہ یہاں تک سختی سے کہا کہ اگر صاحب سو گئے تو محمد خان تمہیں گولی ماردوں گا۔ پرانے سپاہی کیلئے اتنا کافی تھا۔ یہ کہہ کر زاہد نے جیپ اڑا رکھی۔ اس زمانے اتنی ٹریفک بھی نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ فاصلہ جو چالیس میل کے قریب تھا جلد جلد طے ہونے لگا۔

جب نصف فاصلہ طے کرکے پسرور کے قریب پہنچے تو محمد خان نے اطلاع دی کہ سر لفٹننٹ صاحب کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہے اور اب جگائے رکھنا مشکل ہورہا ہے۔ زاہد نے کہا اگر اپنی جان بچانی ہے تو صاحب کو سونے نہیں دینا۔ اور جیپ اور بھی تیز کر دی۔ فاصلہ یوں طے ہوتا گیا کہ آرمی کا ریسلر حفیظ کی نیند سے دست و گریباں تھا اور زاہد جو بہت اچھے ڈرائیور تھے اندیشہ ہائے دور و دراز کے ساتھ راستے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے۔ قسمت نے اب تک تو یاوری کی تھی۔ میجر کیانی ہوتے تو کہتے قسمت بھی گورے لوگوں پر مہربان ہوتی ہے۔ اس شام تو کچھ ایسا ہی ہوا۔


جب سی ایم ایچ میں اڑتی ہوئی جیپ نے لینڈ کیا اور جلدی سے ایمرجنسی میں حفیظ کو اتارا گیا تو ڈاکٹروں نے کہا آپ عین وقت پر پہنچے ہیں! مزید چند منٹ کی تاخیر جان لیوا ہوسکتی تھی۔ یہ سن کر زاہد نے سکھ کا سانس لیا۔ دوسری خوشخبری یہ سنائی کہ اتفاقاً متعلقہ تریاقی ویکسین ہسپتال میں موجود تھی۔ (اس سے تو پتہ چلتا ہے کہ سانپ کو مار لیا گیا تھا اور مجرم کو موقع پر پیش کرکے اس کا ‘ریمانڈ’ لے لیا گیا۔) جلدی سے آکسیجن لگا دی گئی اور ٹیکے شروع ہوگئے۔ زاہد مریض کو حوالہ بہ سی ایم ایچ کرکے یونٹ گئے’ رپورٹ دی اور واپس جسڑ روانہ ہوگئے۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ کہانی کے اس موڑ پر ہم داخل ہوئے تھے۔ چنانچہ اب کہانی کو ایک اور موڑ دے کر ہم بھی خارج ہوتے ہیں اور کہانی کو بھی ‘داخل دفتر’ کرتے ہیں۔

سی ایم ایچ سے واپسی کے بعد ہم کسی ڈیوٹی پر تقریباً دو ہفتے مصروف رہے۔ واپس آکر ایک دن میس کے لان میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہ ایک گورا چٹا سمارٹ لڑکا سپورٹس کٹ میں ملبوس مسکراتا ہوا آیا اور مؤدبانہ سلام کیا۔ ہم نے اس سے پہلے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جواب دے کر پوچھا آپ کی تعریف؟ کیا ہم کبھی پہلے ملے ہیں؟

اس پر وہ کچھ دل زدہ سا ہو کر کہنے لگا سر میں ہوں سیکنڈ لفٹننٹ حفیظ۔ اس رات سی ایم ایچ میں ملے تھے ناں۔ اوہ کہہ کر میں جلدی سے اٹھا اسے گلے لگایا۔ پاس بٹھا کر حال احوال پوچھا اور بالکل ذکر نہ کیا کہ اس رات وہ زہر کے اثر سے کتنا سیاہ ہو چکا تھا۔ نہ ہی میجر کیانی والی بات کا ذکر کیا۔ بلکہ میرا خیال ہے حفیظ جس نے بعد میں چٹاگانگ میں خوب دلیری دکھائی’ کرنل بنا اور اب مزے سے پشاور میں رہتا ہے یہ قصہ پہلی بار پڑھ کر خوب محظوظ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).