سیاست دان ، گریبان اور مطیع اللہ جان


خلق سوچتی نہیں الا کہ بادام کا کاڑھا ہوا وہ دودھ پلایا جائے جو درویش نے اپنی بھینس سے دوہا ہو اور اسی کے اپلے استعمال کر ابالا ہو۔ بادام، جس کے چھلکے کی پرت میں لجاتی شبنمی بوند کافی ہے ڈوب مرنے کے لئے۔ مگر وہ ذی شعور، جو ادراک رکھتا ہو اور گدھے کا بچہ نہ ہو-

تاریخ انسانی گواہ ہے کہ قومیں غلطی سے تباہ نہیں ہوتیں، اس پر اصرار سے تباہ ہوتی ہیں۔ قوم بھٹوجیسی قوم نے اس خطے پر دوبارہ قدم نہیں رکھا اور بھٹو جیسا محرک لیڈر مگر آخر ژولیدہ فکری جس کا مزاج بن گیا ، سمجھ نہ پایا کہ محبت اور ڈر کی جنگ میں جیت ہمیشہ ڈر کی ہوتی ہے ۔ اس قوم کا ایک مزاج ہے اور ایک نفسیات ہے کہ محبت، پرچی اور انگوٹھا اقتدار میں لے تو جاتا ہے مگر جب وہ خاص نفسیاتی حد عبور کر جائے تو تختہ دار پر لے جا تا ہے۔ مگر افسوس ، جہاں دیدہ بھٹوسمجھ نہ پایا کہ سلطنت ایوبی فتح کرنے کا نشہ ہرن نہ ہو سکا تھا ۔ وہ ایوب جس کا ایک رتن کیو ۔یو شہاب سا جری مرد قلندر تھا۔ لفظ جن کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے، اجازت نہ مل پاتی تو اگلے دن کے سورج وہ اس صحیفے پر نظر ہی نہ آ پاتے، خلق جسے اخبارکہتی ہے- وہی رزیل اخبار، مقدر جس کا چوبیس گھنٹے بعد تنور کی روٹی پر لپٹنا ٹھہرا۔ خدا کی پناہ ایسا عجب درویش ، رات جہاں بسر کرتا ، میزبان کے آنکھ کھلنے سے پہلے نائنٹی کے ہاتھ پردہ غیب سے پرمٹ کا ظہور ہوتا۔ ایسے روحانی افراد سے لڑ کر وزیر اعظم بن گئے تو کیا مالک بن سکتے تھے- کجا اس پر اترانا چہ معنی دارد؟ انسان کی اوقات ہی کیا ہے۔ سمجھتا نہیں کہ ناقص العقل کہا گیا ہے اور شعور نہیں رکھتا کہ وہی ملتا ہے جس کی کوشش کی جاٰئے ۔ نیت صاف ہو تو حٖضور کچے دھاگے سے بندھے چلے آتے ہیں چاہے وہ کل کے پرمٹ و کلیم ہوں یا عصر حاضر کے پلاٹ ۔

اسی بھٹو کی بیٹی جس کی نظیر نہ تھی اپنے وقتوں مگر پہاڑ سی غلطی کر بیٹھی کہ اسکے پاس عوام کی محبت ہے، مگر محبت اور ڈر کی جنگ میں اسی محبت کے بیچ سر عام اسےعدم پہنچا دیا گیا اور کسی کو آج تک پتہ نہ چل پایا ۔ اور کیا مل سکا اسے بھی جو دھاڑ روتا تھا اس کی میت پر؟ اور وہ جو اپنی بیوی کی میت پرڈھنگ سے رو بھی نا پایا۔ اے کم عقل نادان انسان اپنی اوقات پہچان ،سمجھتاکیوں نہیں کہ ووٹ ہے تو عیش کر، محلات بنا، گھوم پھر دنیا دیکھ مگر اقتدار کی ہوس مت کر۔ نائب بنایا گیا ہے تمہیں مگر تم شکر نہیں کرتے، بےشک انسان ناشکرا بنایا گیا ہے۔ تاریخ یہی سکھاتی ہے کہ تاریخ سے کوئی نہیں سیکھتا ۔ نادان بھگتتا پھرتا ہے اب عدالتوں میں۔ کیا کبھی ایک میان میں دو تلواریں رہی ہیں، چہ جائیکہ وہ پلاسٹک کی ہوں۔

ان کے درمیان کی تاریخ میں آیا تو کون – اسپ جس کےایسے بسیار خور کہ بادام کے بنے ایسے ایسےکشتے کھا گئے کہ اخبارنویس کو تلاش سے بھی نہ مل سکے۔ وہ نادان سمجھا کہ اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔ وہ بھان متی کا کنبہ ہی اجڑ گیا ۔ ان اسپوں کی ٹاپیں اب شعلہ نہیں شبنم اگلتی ہیں۔ کیا لگا اسے کہ بس تین سال، ارے نہیں نادان خدا کو مان، تین نہیں 70 سالہ سلسلے ہیں، جیسے پنڈی کے کمیٹی چوک کے جہاں دیدہ حکیم درویش باوا نے ایک حبس خوردہ رات عجب انکشاف کیا سارا حبس جاتا رہا ، عقل دنگ رہ گئی کہ اس کے ستر سالہ تجربہ میں بیس سالہ والد اور تیس سالہ تجربہ دادا کا شامل تھا ۔ یہ وہی سلسلے ہیں جن پر ہندوستان کے منفرد شاعر فرما گئے،

دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے

لوہے کے چنے بھی یہاں پلپلے ہوئے

اور کیا کہیں گے اس بندہ عجب کو جس کے در خوش قسمتی نے دستک دی مگر اس نے بھگا دی، وقت جس کا تب نہ ہوا بوٹ آج چمک کر اسکی شان ہی بڑھاتے مگر اس نے بڑھیا کی طرح اپنا سوت کات پھینکا ، اور افسری والا سوٹ کاٹ پھینکا ، آج بھی بنیادی بات نہ سمجھ پایا کہ ہاتھ کوئی سا تب چلتا ہے اگر گریبان کسی سیاستدان کا ہو ۔ایسے میں غیبی مدد آ جاتی ہے، پھر چاہے اسے چاک کرو، پھاڑ پھینکو یا اسکے ٹب میں وہ تصویر بنا ؤ جسکا ترجمہ گزشتہ صدی مرد قلندر “خودی ” سے کر گیا تھا ۔ کیا لگا اسے کہ ہر گریبان ایسے پکڑنے دیا جائے گا، صحافیوں کے گھروں اور سرکاری حج والا پروگرام قبل مسیح کا تو نہ تھا –کیا بن پایا تھا تب ؟ اور اب انگلیاں خونچکاں کیوں نہ ہوتیں جو مقدس گریبان کو پکڑ پا تیں یا زمین پھٹ نہ جاتی جو اپنے مذموم ارادے میں کامران ہو جاتا؟ (پس تحریر، یہاں کامران وہ مرد دانا نہیں جو آسٹریلیا ہوتے ہیں) –

مصحؔفی کے بقول

کیا یار کے دامن کی خبر پوچھو ہو ہم سے

یاں ہاتھ سے اپنا ہی گریبان گیا تھا

اور کیا انجام ہوا ان کا ، جو بڑے ناز سے بلائے گئے تھے سرکاری بھونپو درست کرنے۔ یہی نہ سمجھ پائے کہ بھونپو پر کونسا سر کونسی تال کے ساتھ ملا کر راگ درباری بنتا ہے، اب الاپئے راگ بھیرویں یا کافروں کے دیس جا کر کوئی سمفنی ڈھونڈیں ۔ پاک سرزمین میں غلط سر ؟ الامان – یہاں تو ملکہ ترنم تک جان گئیں تھیں کہ راگ درباری میں ٹھاٹھ صحیح کس جگہ بٹھائے جاتے ہیں ۔ افسوس مگر آخر سارے مفتوح رہ جاتے ہیں پس ماندہ پامال اور خاک آلود، آخر کو زخم رہ جائیں گے اور پچھتاوا۔

خلق سوچتی نہیں الا کہ بادام کا کاڑھا ہوا وہ دودھ پلایا جائے جو درویش نے اپنی بھینس سے دوہا ہو اور اسی کے اپلے استعمال کر ابالا ہو۔ بادام، جس کے چھلکے کی پرت میں لجاتی شبنمی بوند کافی ہے ڈوب مرنے کے لئے۔ مگر وہ ذی شعور، جو ادراک رکھتا ہو اور گدھے کا بچہ نہ ہو-

الحذر، الامان – مطیع اللہ جان کا اپنا اپنا گریبان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).