صرف 30 دن میں ڈاکٹر بنیے


ایک پرانا لطیفہ ہے کہ ایک انگریز پاکستان دورے پر آیا تو انارکلی کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک فٹ پاتھ پر ایک کتاب دیکھ کر بے ہوش ہو گیا۔ کتاب کا عنوان تھا ”صرف 30 دن میں ڈاکٹر بنیے“۔ خدا جانے بعد میں اس انگریز کا کیا بنا لیکن یہ غیر روایتی لطیفہ ہمار ے نظام تعلیم پر مکمل فٹ آتا ہے۔

آپ نے اکثر اشتہارات دیکھے ہوں گے کہ ”فیل ہو نا بھول جائیں“، صرف 30 دن میں بی اے کی مکمل تیاری، صرف 12 سوالات اور آپ کی امتحان میں کامیابی یقینی وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام پیغامات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں صرف اور صرف امتحان پاس کرنے سے مطلب ہےخواہ اس کے لیے کوئی بھی راستہ اختیار کیا جائے۔ اور امتحان بھی کیسا جس میں طالب علم کی علمی قابلیت سے زیادہ اس کا رٹا چیک کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر آپ تعلیمی نظام کی عملی شکل دیکھنا چاہیں تو وہ کچھ یوں ہوگی۔

مصنف کتاب لکھتاہے۔ استاد اس کتاب کو بلیک بورڈ پر اتار دیتا ہے اور طالب علموں کو بتا دیتا ہے کہ کتاب میں لکھا کیا ہے۔ طالب علم اس مواد کو اپنی کاپی پر نقل کرتا ہے اور خوب رٹے لگاتا ہے۔ اس کے بعد ممتحن اسی کتاب میں سے پیپر تیار کرتا ہے اور طالب علم انہی رٹی رٹائی باتوں کو امتحانی شیٹ پر نقل کر دیتاہے۔ اس کے بعد استاد اسی کتاب کی روشنی میں پیپر چیک کرتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ طالب علم پاس ہے یا فیل۔

غور فرمائیں اس پورے عمل میں کسی جگہ بھی طالب علم کی ذہنی قابلیت میں کوئی اضافہ نہ ہوا۔ یہی وجہ ہے ہمارے ایم اے انگلش پاس طلبہ و طالبات کو اگر کوئی درخواست یا خط لکھنا پڑ جائے جو ان کی امتحانی کتابوں میں نہیں تھا، ہر گز نہیں لکھ پاتے۔

تعلم جستجو اور نئی باتوں کے سیکھنے کا نام ہے۔ قرآن پاک میں کئی آیات میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ کائنات کے سربستہ رازوں کی طرف اشارہ کرکے ان کے بارے میں جاننے کی جستجو بیدار کی گئی ہے۔ لیکن افسوس اس عظیم شاہکار کو ثواب کی نیت سے پڑھنے کے علاوہ ہم کچھ نہ کرسکے۔ گو اس کو پڑھنے کا ثواب اپنی جگہ لیکن اس میں دی گئی تعلیمات جو کائنات کا نقشہ بدل سکتی ہیں، ہم ہر گز فائدہ نہ اٹھا سکے۔

ہمار ا دین تو ہمیں طلب علم کی خاطر کہیں پر جانے کی اجازت دیتا ہے، لیکن ہم ہیں کے گھر بیٹھ کے چند الفاظ رٹ کے اپنے آپ کو تعلیم یافتہ کہلوانے کے درپے ہیں۔ کسی نے کیا خوب لکھا ہے کہ جہاں ہر چند قدم پر درسگاہ کی جگہ درگاہ ہو گی وہاں ”سائیں“ تو پید ا ہو سکتے ہیں ”سائنسدا ن“ نہیں۔ ہمارے موجود تعلیمی نظام کی مہربانی سے ہم صرف پڑھنا لکھنا جاننے والے انسان تو بن سکتے ہیں، تعلیم یافتہ ہر گز نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).