جنرل مشرف کے گھروں سے نیا پاکستان کے گھروں تک کے سبز باغ


جناب وزیر اعظم صرف ایک گھر چاہیے۔ آپ پچاس لاکھ گھر بنوا رہے ہیں۔ اس سے پہلے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت دو کروڑ گھر بنائے ہیں۔ حکومت نے جو گھر بنا کے دیے ہیں ان کی تعداد سینکڑوں نہیں تو ہزاروں میں ہو سکتی ہے لاکھوں میں نہیں۔ لیکن مجھے صرف ایک گھر چاہیے کہیں بھی نہیں اسلام آباد میں۔ یہ بہت بڑی خواہش ہے چولستان کے خانہ بدوش کیمپوں میں رہنے والوں کی۔ لاہور کراچی کے رہنے والے بھی اسے نہ پوری ہونے والی خواہش ہی سمجھتے ہیں سوائے اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کے یا جو لوگ یہ مزہ لوٹ چکے ہیں یا لوٹنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔

ہم ان تینوں اقسام کے لوگوں کے ضمرے میں نہیں آتے نہ ہم اعلی سرکاری افسر ہیں کہ اسلام آباد ٹرانسفر کا سوچتے ہوں۔ ہم ایک عام قسم کے شہری ہیں لیکن ہماری سوچ صوبائیت کا شکار نہیں۔ اس لئے ہم سوچ کے اعتبار سے پاکستان پرست بلکہ اسلام آباد پرست واقع ہوئے ہیں۔ ہم پڑھنے کی عمر سے گزر گئے ہیں ورنہ آج کل شدید خواہش ہے کہ وزیر اعظم ہاوس کو جس یونیورسٹی میں بدلا جارہا ہے اس میں تعلیم حاصل کریں۔ بلکہ وہاں داخل ہو کر سٹوڈنٹ یونین کا الیکشن لڑیں اور کامیاب ہو کر سابق وزیر اعظم کے دفتر کو صدر سٹوڈنٹ یونین کا دفتر قرار دے کر اس پر براجمان ہو جا ئیں۔ ایسا ہو گیا تو ہم وزیراعظم ہاوس کی گاڑیاں نیلام نہیں ہونے دیں گے بلکہ ان کو سٹوڈنٹ اور سٹاف کے پک اینڈ ڈراپ کے لئے استعمال کریں گے آخر ہم اس شاہی وزیر اعظم کی شاہی یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں کوئی مذاق نہیں۔

محترم عمران خان صاحب آپ کے دل میں غریبوں کو گھر بنا کے دینے کاجذبہ قابل صد ستائیش ہے لوگ ایسے کسی لیڈر کے انتظار میں تھے جو انہیں اس طرح کے گھر بنا کردے۔ اتنے بڑے منصوبے میں تو جو بھی گھر لینے کی خواہش کرے گا اسے مل جا ئے گا بلکہ کچھ گھر ضرورت سے زیادہ بن جا ئیں گے۔ وہ اگلی نسل کے کام آئیں گے۔ یہاں کون آنے والی نسلوں کے لئے سوچتا ہے۔ آپ وہ کام کر رہے ہیں جو پہلے کسی سے نہ ہو سکا۔ شہباز سپیڈ مار کو ہی دیکھ لیں حالانکہ آشیانہ کوئی اتنی بڑی سکیم نہیں تھی مگر پھر بھی نہ بنا سکے اور جیل کی ہوا کھا رہے ہیں۔ آصف زرداری کو دیکھ لیں اس نے بھی کئی گھر بنائے لیکن اپنے لئے وہ بھی بیرون ملک۔ نواز شریف نے تو صرف فلیٹ خریدے وہ بھی اس کے بیٹوں کے نکلے۔ جیل کی ہوا کھائی۔ اب آرام سے پھرتا ہے۔

جناب وزیر اعظم، مشرف تو بڑا ایماندار آدمی تھا اس سے ہم نے اپنے گھر بارے کافی توقعات باندھ لی تھیں وہ بھی اسلام آباد میں گھر بنانے بلکہ بنا بنایا لینے کی۔ ہم بہت پرامید تھے۔ مشرف وعدے کا بھی پکا تھا اور ہمت والا بھی۔ اس نے اعلان کیا اسلام آباد میں کم آمدنی والے لوگوں کو گورنمنٹ گھر بنا کر دیگی۔ اس وقت بھی نیا پاکستان ہاوسنگ سکیم کی طرز پر اعلانات ہوئے ’اشتہار چھپے اور۔ ٹی وی نے آج کی طرح حکومت کی غریب پروری کی مدح سرائی میں زمین آسمان کے قلابے ملائے۔

ہم حکومت کے اس دھوکے می آگئے۔ لاکھوں لوگوں نے درخواست فارم خریدے۔ قرع اندزی ہوئی۔ ہماری خوش قسمتی سے قرع اندازی میں نام نکل آیا۔ ہم خوش قسمت قرار دے دیے گئے حالانکہ یہ ہماری بد قسمتی کا آغاز تھا۔ ہمارا سیکٹر آئی 15 میں فلیٹ نکل آیا تھا۔ یہ 2004 کی بات ہے۔ ہم نے فلیٹ کی قسطیں بھرنا شروع کردیں۔ قسطیں مکمل ہو گئیں۔ فلیٹ آج تک نہیں ملا۔

سیکٹر آئی۔ 15 کا پی سی ون 2003 میں بنا اس کا تخمینہ 9۔ 2 ارب لگایا گیا جو بعد میں 4۔ 8 ارب ہو گیا۔ سی ڈی اے نے اس ضمن میں عوام سے لگ بھگ 5ارب اکٹھےکیے ۔ مزے کی بات ہے جس کا یقین کرنا مشکل ہے۔ کہتے اس وقت کے چیرمین نے یہ رقم سٹاک مارکیٹ میں لگائی۔ نقصان ہوا۔ کسی نے نہیں پوچھا۔ سی ڈی اے کے آٹھ ڈائیریکٹوریٹ آج تک اس کی پلاننگ نہیں کرسکے۔ 13 سال میں مجوزہ زمین پر ناجائز قابضین کو ہٹایا نہیں جاسکا۔ 2016 میں سی ڈی اے نے فیصلہ کیا کہ اتنے پیسوں میں فلیٹ نہیں بن سکتے۔ فلیٹ کے بدلے 5 مرلے کے پلاٹ دینے کا فیصلہ ہوا۔ پلاٹوں کی قرع اندازی ہوئی مگر دو سال مزید گزرنے کے باوجود حالات جوں کے توں ہیں۔

مارچ2018 میں خورشید شاہ کی سربراہی میں پبلک اکاونٹ کمیٹی نے اس مسئلے کی انکوائری شروع کی۔ کمیٹی نے 7 ارب کے غبن کی بابت سوالات کیے لیکن سی ڈی اے کے چیرمین کمیٹی کو مطمئن نہ کر سکے۔

آشیانہ ہاوسنگ میں نیب احد چیمہ اور فواد حسن فواد پہلے ہی نیب کی حراست میں ہیں۔ شہباز کی پرواز بھی سمٹ کر نیب کی حوالات تک محدود ہو چکی ہے۔ لیکن سی ڈی اے کے افسروں کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ سیکٹر آی15 تو غریب لوگوں کے لئے تھا۔ پارک انکلویو کا بھی یہی حال ہے۔ لوگوں کے اربوں روپے ڈوبے ہوئے ہیں۔ پارک انکلیو میں ایک ایک پلاٹ کم از کم ایک کروڑ کا بیچا گیا ہے۔

بیرون ملک سے لوگوں نے نقشے دیکھ کر پیسے لٹائے ہیں مگر پانچ سال ہو گئے سی ڈی اے پارک انکلیو کے لئے زمین حاصل نہیں کر سکا، ترقیاتی کام تو دور کی بات ہے۔ پہلے تو پرائیویٹ قسم کے پراپرٹی ڈیلر لوگوں کو لوٹا کرتے تھے۔ اب تو سرکاری ٹھگ میدان میں آ چکے ہیں۔ سی ڈی اے‘ ایل ڈی اے وغیرہ وغیرہ سرکاری ٹھگ ہی تو ہیں جو لوگوں کے اربوں روپے کا نقصان کر چکے ہیں۔ جب تک ان کا احتساب نہیں ہوگا کوئی نئی سکیم کامیاب نہیں ہو گی۔ ان حالات میں نئے پاکستان کی نئی ہاوسنگ سکیم میں کون پیسے لگائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).