بلوچستان پبلک سروس کمیشن کو اپنا کام کرنے دیں


ستائیس ستمبر 2018 سے شروع ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر اور سیکشن آفیسرز کی 62 خالی اسامیوں کے لیے پی سی ایس ایگزام کے دوران سوشل میڈیا پر لوگوں کا فیس بک اور واٹس ایپ پر بلوچستان پبلک سروس کمیشن اور اس کے چیئرمین کے خلاف پروپیگنڈہ عروج پر ہے۔ اور اپنے تنقیدی خیالات کا اظہار سوشل میڈیا کے گروپوں میں کھل کر کیا جا رہا ہے۔ ناقدین دیگر کئی اعتراضات کے علاوہ جنرل نالج کے پیپر پر انگلی اٹھانے کی یہ وجہ بتا رہے ہیں کہ یہ ان کے مطابق گوگل سے تیار کیا گیا ہے۔ جہاں سوالات کے حدود کا تعین اور ان کی تیاری کرنا کسی بھی امیدوار کے بس کی بات نہیں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ اج سے تین سال قبل لوگوں نے اس وقت کے چیئرمین مگسی کے خلاف آواز صرف اس لیے اٹھائی کہ وہ میرٹ پر روزگار فراہم کرنے میں دانستہ طور پر ناکام ہوگئے ہیں۔ لہذا اس کو یہ عہدہ خالی کرنا پڑیگا۔ نتیجتاً وہ چلے بھی گئے۔ اور صوبائی حکومت نے بڑے غور و خوص کے بعد جسٹس(ر) رام ناتھ کوہلی کو یہ حساس ذمہ داری سونپ دی۔ جس کو وہ پچھلے تین سالوں سے بخوبی نبھا رہے ہیں۔

کوہلی صاحب نے بحثیت چیرمین بی پی ایس سی کے ساکھ کی بحالی اپنے انتھک کاوشوں اور اداراتی اصلاحات کے ذریعے کامیابی سے کر دی۔ جس کی برکت سے میں نے بذات خود بہت سے جاننے اور انجانے لاوارث لوگوں کو بڑے بڑے پوسٹوں پر بھرتی ہوتے دیکھا ہے۔ اگر صرف 2016 کے تحصیلدار اور اسسٹنٹ کمشنر اینڈ سکیشن آفیسرز کی بھرتیوں کی بات کریں۔ تو اپ کو یقین ہوجائے گا کہ اس میں وہ لوگ کامیاب ہوئے ہیں جن کا تعلق نہ افسرشاہی خاندانوں سے، نہ سرداروں، وڈیروں اور نہ ہی سیاسی خاندانوں سے تھا۔ یہ سب وہ لوگ تھے۔ جن کا سہارا یہی ایک صوبائی ادارہ تھا۔ تو یہ اس ادارے کی بڑی کامیابی ہے۔ جس کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔

اب اگر کوئی یہ کہے کہ جنرل نالج کا پیپر ان سوالات سے کیوں نہیں اتا۔ جن کو انہوں نے پڑھا ہے یا تیار کیا ہے۔ تو یہ مسئلہ تو ان کا ذاتی ہوسکتا ہے، مجموعی نہیں۔ الزامات ان کے ذاتی سوچ کی پیداوار ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ رائے عامہ نہیں۔

یہ بات کسی کو نہیں بھولنی چاہیے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کم وبیش 11000طلباء و طالبات نے اس دفعہ پی سی ایس کے ایگزام کے لیے اپلائی کیا۔ ان سے امتحان لینا، ان کو صحیح طریقے سے اکاموڈیٹ کرنا، ان کے رولنمبر جاری کرنا کوئی اسان کام نہیں ہے۔ جس کو اس ادارے نے اچھے طریقے سے سرانجام دیا ہے۔

ناقدین کوہلی صاحب کی سربراہی میں اس ادارے پر من مانی تنقید کرتے ہوئے یہ نہ بھولیں کہ ان 11000 امیدواروں میں 95 فیصد وہ امیدوار ہیں۔ جو پی سی ایس ایگزام کی الف ب بھی نہیں جانتے۔ اور وہ صرف اپنا قد کاٹھ دوستوں اور گھر والوں کے سامنے بڑھانے کے لیے اپئیر ہو رہے ہیں۔ اور رزلٹ کے دن اپنی ناکامی، نالائقی اور نا اہلی چھپانے کے لیے جعلی ڈی ایم سی بنا کر یا پھر جھوٹ بول کر قابلیت کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ اور کیا پتہ کہ ایک ادھ کو چھوڑ کر سوشل میڈیا پر شور مچانے اور اس ادارے پر کیچڑ اچھالنے میں اکثریت انہی شکست خوردہ ذہنوں کی ہوں۔

ہمیں ایک ایسے ادارے کے خلاف اپنی سیاست اور احتجاجی عادات کا روش ترک کرنا ہوگا۔ یہ کسی کی خاندانی اور پیدائشی جاگیر نہیں کہ جس کے زبان پر جو ایا۔ اس کا اظہار کریں۔ اخلاقیات، ضابطے، اصول اور قاعدہ بھی کسی چیزکا نام ہے۔ اگر کسی کو کسی نقطہ پر اعتراض ہے۔ تو اسے اپنا تجویز پیش کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر یہ بات کوئی کہہ سکتا ہے کہ پی سی ایس کے ایگزام سے قبل اگر سکریننگ ٹیسٹ کا اہتمام ہو تو اس سے نا اہل اور برائے نام پی سی ایس امیدواروں کا رستہ روکا جاسکتا ہے۔ اسی طرح دیگر صوبوں کی طرح اس صوبے میں پی ایم ایس متعارف کرنا چاہیے۔ اور مضامین کے متعین کردہ سلیبس کیمطابق پیپرز انی چاہیے۔

لیکن یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ جنرل نالج کا پیپر کسی کی مرضی کے مطابق نہیں ا سکتا۔ البتہ جو اس پیپر کے بنیادی اصول ہیں ان کا لحاظ پہلے کی طرح اس بار بھی رکھا گیا تھا۔ اگر کام ہی صرف بات کرنے کا بچا ہوں۔ تو میرے 2016 کے فرسٹ اٹیمپٹ میں 462 نمبر ائے تھے۔ اور صرف جنرل نالج کے پیپر 5 نمبر سے رہ گیا تھا۔ چیئرمین بی پی ایس سی کے پاس 5 نمبر تک گریس مارکس دینے کا قانونی اختیار موجود ہے۔ لیکن نہ اس نے دیے اور نہ میں نے تنقید و اصرار کیا۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ میری خواہش اپنی جگہ صحیح یہ ادارہ اپنا کام مجھ سے بہتر جانتا ہے۔

مقصد یہ کہ اس ادارہ پر بے جا تنقید قطعی طور پر غیر مناسب، غیر شائستہ اور غیر مہذہب ہے۔ تعمیری تنقید و تجویز ہر امیدوار، ہر طالبعلم اور ہر شہری کا اصولی حق ہے۔ لیکن اس حق کے غلط استعمال سے عدم اعتماد کا فضاء پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ ادارے کی بنائی ہوئی ساکھ متاثر کرنا قانونی و اخلاقی جرم ہے۔ ہمیں خود احساس ذمہ داری کے ساتھ بات تول کر بولنی چاہیے۔ بی پی ایس سی اور اس کے چیئرمین کے خلاف منفی پروپیگنڈہ نہ اس نئی نسل کی رہنمائی ہے۔ اور نہ ہی خدمت۔ حوصلہ افزائی کی بجائے امیدواروں میں مایوسی کی فضاء قائم کرنا پست اور حوصلہ شکن ذہنیت کی نشانی ہے۔ جس کو حوصلہ افزاءعمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).