بینظیر اور بابا دھنکہ کے ڈنڈے


پیپلزپارٹی کے تین وزراء کو قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کی پارٹی ہائی کمان کی طرف سے ہدایت تھی، جن میں میجر جنرل (ر) نصیر اللہ خان بابر، ڈاکٹر این ڈی خان اور ڈاکٹر شیرافگن نیازی شامل تھے۔ میں تین کے اس ٹولے پر نکتہ چینی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا۔ میں جنرل نصیر اللہ بابر کو نمائشی فوجی کہہ کر پکارتا۔ 1965ء کی جنگ کے دوران انہوں نے اپنا ہیلی کاپٹر بھارتی فوج کے درمیان لے جا کر اتارا تھا۔ اس نے سمجھا کہ یہ پاکستانی فوجی ہیں۔ اگر بھارتی فوج ہمارے افسر کو گرفتار کرتے تو ہمارے پاس ان کی جگہ دوسرا فوجی افسر آتا، لیکن ہیلی کاپٹر کی جگہ دوسرا نہ ملتا۔ میں اکثر انہیں کہا کرتا کہ انہیں جو ایوارڈ ملا ہے، وہ ہیلی کاپٹر کو واپس لانے کے صلے میں دیا گیا تھا۔ یہ سب کچھ میں انہیں زک پہنچانے کے لئے کہتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک بہادر افسر تھے اور اس ایوارڈ کے مستحق تھے۔

پیپلز پارٹی کے وزیر این ڈی خان کو ہم ’’نتھنگ ڈوئنگ خان‘‘ کہا کرتے تھے۔ وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے اور ان کی ایم بی بی ایس کی ڈگری پر ہم یہ جملہ کستے تھے کہ اس کا مطلب طب کی سند نہیں بلکہ ’’میاں بیوی بچہ ساتھ‘‘ ہے، کیونکہ این ڈی خان جہاں جاتے ان کی فیملی ان کے ساتھ ہوتی تھی۔ ڈاکٹر شیر افگن نیازی کو ہم ’’ڈنگر ڈاکٹر‘‘ (وٹرنری ڈاکٹر) کہا کرتے تھے۔

بے نظیر نے میری تقریروں اور ریمارکس کا جواب دینے کی ذمہ داری غضنفر گل کو سونپ دی تھی۔ وہ جب بات کرتے تو نظریں گھما کر بات کرتے۔ ان کے منہ سے جھاگ نکلتی اور وہ ہکلا کر بولتا تھا۔ میں نے ایک دن سپیکر سے کہا کہ اگر غضنفر گل اپنی ٹوپی چھت کی طرف اچھال کر سر کے بل چل کر بھی ایوان میں آ جائیں تو اس دیوانگی کے باوجود ہم انہیں دیوانہ قرار نہیں دے سکتے، کیونکہ کسی کو مخبوط الحواس قرار دینا عدالت کا کام ہے۔ جس کا آئین میں واضح تذکرہ موجود ہے، تاہم جناب سپیکر! ہمیں انہیں برداشت کرنا ہی ہو گا، کیونکہ یہ دنیا ایسے عجیب لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔‘‘ میری بات سن کر غضنفر گل کافی مشتعل ہو جاتے تھے۔

بے نظیر بھٹو ایک مرتبہ ہیلی کاپٹر میں مانسہرہ کے قریب دھنکہ بابا سے آشیر باد لینے گئیں۔ وہاں سے براہِ راست قومی اسمبلی پہنچیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ’’دھنکہ بابا کے ڈنڈے کھا آئیں؟‘‘ (دھنکہ بابا اپنی ملاقات کے لئے آنے والوں کو اپنی آشیرباد دینے کے لئے ہلکے ڈنڈے مارتے ہیں) میرے سوال پر بے نظیر مسکرانے لگیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی دعائیں اور آشیرباد اس حوالے سے میرے لئے بہت ہے کہ وہ حکومت میں ہیں۔ (انہوں نے ڈنڈے مارنے والی بات جان بوجھ کر گول کر دی) میں نے کہا۔ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دھنکہ بابا کو یہ بات معلوم ہے کہ آپ کی حکومت کے جانے کے دن ٹھہر گئے ہیں۔

اقتباس از ’’ ایوان اقتدار کے مشاہدات ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).