سعودی عرب کا داخلی بحران اور عمران خان کا شوق فراواں


جب دنیا بھر کے اقتصادی لیڈر اور وزرائے خزانہ اگلے ہفتے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت سے انکار کر رہے ہیں، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے شاہ سلمان کی دعوت پر اس کانفرنس میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم نے اچانک دعوت ملنے کی خوشی میں اس کا پس منظر جاننے کی بجائے کل ملکی میڈیا کے وفد سے باتیں کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ دوست ملکوں سے مدد ملنے کی پوری توقع ہے۔ ضروری نہیں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی ضرورت پڑے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے اس ماہ کے شروع میں روپے کی قدر میں اچانک کمی اور کراچی اسٹاک ایکسچینج میں سامنے آنے والی بےچینی کے بعد 11 اکتوبر کو بالی میں عالمی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹینے لاگارڈے کے ساتھ ملاقات میں فنڈ سے ایک نئے بیل آؤٹ پیکج کی درخواست کی تھی۔ اس درخواست پر اٹھنے والے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے اسد عمر نے کہا تھا کہ پاکستان کی حکومتیں اس سے پہلے ڈیڑھ درجن بار آئی ایم ایف سے پیکج لے چکی ہے۔ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے ایک نیا قرض لینے میں کوئی حرج نہیں۔

پاکستان کو اس وقت ادائیگیوں کے توازن میں شدید خسارے کا سامنا ہے اور اس کے زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ اسٹیٹ بنک کے جاری کردہ تازہ اعداد شمار کے مطابق اس وقت پاکستان کے پاس 8.1 ارب ڈالر کے لگ بھگ زر مبادلہ ہے جو ایک سے دو ماہ کی درآمدات کا بل ادا کرنے کے قابل ہے۔ اس صورت میں پاکستان کو فوری طور سے دس سے بارہ ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ اگست میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے سے پہلے نگران حکومت نے اس مالی بحران سے نکلنے کے لئے آئی ایم ایف سے پیکج لینے کی تیاریاں شروع کردی تھیں اور خیال کیا جا رہا تھا کہ نئی حکومت آئی ایم ایف سے 12 ارب ڈالر کا قرض مانگے گی۔

یہ فیصلہ عمران خان کے انتخابی وعدوں اور دعوؤں سے متصادم ہونے کی وجہ سے وزیر اعظم کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا۔ تاہم مالی بحران کے حل کے لئے کوئی ٹھوس متبادل سامنے لانے کی بجائے وزیر اعظم سمیت کابینہ کے ارکان نے متضاد اور غیر حقیقی بیانات دے کر سرمایہ داروں کو مزید بے یقینی کا شکار کیا ہے۔ گزشتہ ماہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورہ کے بعد یہ تاثر قوی کرنے کی کوشش کی گئی کہ سعودی عرب عمران خان کی درخواست پر دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے اور پاکستان کو مؤخر ادائیگی کی بنیاد پر تیل فراہم کرنے پر راضی ہو گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے ایک جیالے لیڈر نے اس امداد کا حجم دس ارب ڈالر بتا کر خوب داد بھی وصول کی تاہم وزیر خزانہ کو ان خوش فہمیوں کی تردید کرنا پڑی۔

 وزیر اطلاعات فواد چوہدری بھی سعودی سرمایہ کاری اور فراخدلانہ امداد کے بارے میں پر جوش بیانات دیتے رہے ہیں ۔ وزیر اعظم کے دورہ کے بعد پاکستان میں سرمایہ کاری کا جائزہ لینے کے لئے اس ماہ کے شروع میں ایک سعودی وفد پاکستان آیا جس کے دوران کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔ آئی ایم ایف سے قرض ہی واحد آپشن کے طور پر موجود تھا۔ اس بارے میں باقاعدہ درخواست بھی دے دی گئی ہے اور اگلے ماہ کے شروع میں آئی ایم ایف کا ایک وفد بھی اسلام آباد کا دورہ کرنے والا ہے۔ لیکن کل وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر اپنی معاشی چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ضروری نہیں کہ پاکستان عالمی مالیاتی فنڈ سے قرض لے۔ ہم متبادل ذرائع سے سرمایہ کی فراہمی پر غور کررہے ہیں‘۔ آج وزیر اعظم ہاؤس سے باقاعدہ طور سے اس اعلان کے بعد کہ وزیراعظم 23 اکتوبر سے ریاض میں شروع ہونے والی عالمی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کے لئے سعودی عرب جائیں گے، عمران خان کی خوش فہمی کا سبب بھی سامنے آ گیا ہے۔ مالیاتی معاملات اور عالمی سفارتی ضرورتوں سے نابلد وزیراعظم اس امید کے ساتھ ریاض جارہے ہیں کہ اس دورہ کے دوران وہ کچھ عالمی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کرلیں گے۔ اس کے علاوہ شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقاتوں میں انہیں پاکستان کو کچھ امداد دینے پر راضی کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس گمان میں عمران خان کو آئی ایم ایف ایک بار پھر زہر لگنے لگا ہے۔

سعودی امداد ملنے کی خوش فہمی کے جوش میں وزیر اعظم یہ غور کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں کہ شاہ سلمان نے ایک ایسے وقت پاکستانی وزیر اعظم کو ریاض کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ہے جب سعودی صحافی جمال خشوگی کی پراسرار گمشدگی کے بعد دنیا کے مالیاتی لیڈر اور سیاسی رہنما یکے بعد دیگرے بڑی تعداد میں اس کانفرنس میں شریک ہونے سے انکار کر رہے ہیں۔ انکار کرنے والوں میں اب امریکہ کے وزرائے تجارت اور خزانہ لیام فوکس اور سٹیو منوچن بھی شامل ہوچکے ہیں۔ اس سے پہلے فرانس، ہالینڈ اور متعدد دوسرے ملکوں کے وزرائے خزانہ نے اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا تھا جسے عرف عام میں ’صحرائی ڈاووس‘ کا نام بھی دیا جانے لگا تھا۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹینے لاگارڈے دو روز پہلے اس کانفرنس میں شرکت سے معذوری ظاہر کرچکی ہیں۔ عالمی لیڈروں کا سعودی کانفرنس میں جانے سے گریز کا سلسلہ ابھی جاری ہے ۔ جمال خشوگی کی 2 اکتوبر کو استنبول کے سعودی قونصل خانے سے اچانک گمشدگی کے بارے میں اگر کوئی ثبوت سامنے آگئے اور کسی طرح اس صحافی کے مبینہ قتل میں سعودی تعلق ثابت ہونے لگا تو باقی ماندہ مالیاتی ادارے بھی اپنے سربراہوں کو ریاض جانے سے روکنے پر مجبور ہوں گے۔

عمران خان نے سعودی دعوت وصول ہونے کی خوشی میں یہ جاننے کی بھی کوشش نہیں کی کہ آخر ایک ایسے وقت پاکستان کے وزیر اعظم دعوت کیوں دی گئی ہے جب دنیا بھر کے لیڈر اس کانفرنس میں شرکت سے گریز کررہے ہیں۔ یہ دعوت اس وقت کیوں نہ آئی جب دیگر عالمی لیڈروں کو مدعو کیا جارہا تھا۔ جمہوریت کی بنیاد پر کامیاب ہونے والے وزیر اعظم کو یہ سوچنے کا خیال بھی نہیں آیا کہ ایک صحافی کے مبینہ قتل کی وجہ سے اس وقت انسانی حقوق کے بارے میں سعودی حکومت اور خاص طور سے اس کے بااختیار ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے کردار کے بارے میں چہ میگوئیاں ہورہی ہیں۔

باقی اداریہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali