چٹا انکار ایک بہترین راستہ ہے!


 

امی ابو ہمیشہ آپ کو اچھا بچہ بنا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب آپ خود والدین کی سیٹ پہ بیٹھتے ہیں تو آپ کی خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ بچہ ایک پرفیکٹ نیک پاک بلکہ ولی ٹائپ کا آدمی بنے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ سب سے پہلی وجہ تو شاید معاشرے کا خوف ہے۔ اگر آپ کی اولاد روایتی سٹینڈرڈز کے حساب سے کوئی کام نہیں کرتی تو پہلے آپ کے کھنے سینکے جائیں گے، بچوں کی باری بعد میں آئے گی۔ ہمیں آئیڈیا نہیں ہوتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسری اور تیسری وجہ بھی یہی ہوتی ہے۔ جھوٹ نہیں بولنا، کسی کی چیز نہیں مانگنی، دوسروں کے گھر جا کے زیادہ نہیں کھانا (بلکہ کم بھی نہیں کھانا)، گھر مہمان آئیں تو ان کے سامنے کچھ نہیں کھانا (اور ان کے جاتے ہی سارے بچوں نے اکٹھے بھاگ کے ٹرے خالی کرنی ہے)، کسی کو مارنا نہیں ہے، کسی کو گالی نہیں دینی وغیرہ وغیرہ، یہ ساری باتیں نہ صرف بچپن سے ہمارے دماغ میں ڈالی جاتی ہیں بلکہ پرتپاک طریقے سے ان پہ عمل بھی کروایا جاتا ہے۔

اب ایک اصول ان ساری منع شدہ چیزوں میں دیکھیں تو وہ یہی نظر آئے گا کہ ہر ایسے کام سے روکا جا رہا ہے جس سے دوسرے کسی بھی طرح ایفیکٹ ہو رہے ہیں۔ نہیں بھی ہو رہے تو اس چیز کا خطرہ بہرحال موجود ہے کہ انہیں ہمارے بچوں کی عادتیں پسند نہیں آئیں گی۔ مطلب کیا ہوا؟ یعنی سوشلی بچوں کو دوسروں کے لیے قابل قبول بنانے کے چکر میں ہم ان پہ یہ ساری پابندیاں لگاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ بڑا ہو کے ایک فل ٹائم سدھایا ہوا انسان تو بن جاتا ہے لیکن اس کے اندر بہت سارا ڈر موجود رہتا ہے، ہر وقت رہتا ہے۔ وہ ڈر ”لوگوں‘‘ کا ہوتا ہے۔ ان سارے دوسرے لوگوں کا، جو کم بخت زندگی میں کسی بھی مرحلے پہ آ کر ہاتھ تو نہیں پکڑتے لیکن اگر کچھ غلط ہو جائے تو سب سے پہلے انگلی ضرور اٹھاتے ہیں۔ اس ڈر کے چکر میں کرنے والا بہت سے کام ایسے بھی کرتا ہے جو وہ دل سے نہیں کرنا چاہتا بلکہ ہرگز نہیں کرنا چاہتا۔ ان کاموں کی فہرست میں سب سے اوپر ‘ہاں‘ کہنا ہے۔

آپ کسی کو ‘نہیں‘ کہتے ہوئے اتنا ہی ڈرتے ہیں جتنا جھوٹ بولتے ہوئے یا چوری کرتے ہوئے۔ ‘نہ‘ کر دینے اور جھوٹ یا چوری میں فرق ہے استاد، وہ فرق مل کے جاننا ہو گا۔ سب سے پہلی چیز جو ایکدم کلیئر کرنی ہے وہ زندگی کا آئیڈیا ہے۔ آپ کس کے لیے زندہ ہیں؟ آنکھیں بند کرکے سوچنے کی ضرورت نہیں، جتنے مرضی گوتم بدھ بن جائیں آپ کے زندہ رہنے کی پہلی وجہ بہرحال آپ خود ہیں۔ آپ کو زندگی سے محبت ہے، خود اپنے آپ سے محبت ہے، اس لیے آپ زندہ ہیں۔ چونکہ آپ زندہ ہیں اس لیے اپنا آرام، اپنی آسائش بھی چاہتے ہیں۔ دوسروں کے سامنے کی گئی ایک غلط ”ہاں‘‘ آپ کو اس آرام اور دماغی سکون سے محروم کرتی ہے جو ایک چھوٹی ترین ”نہ‘‘ سے باآسانی مل جانا ممکن ہے۔ تو پہلی بات یاد رکھیے کہ انکار پوری طبیعت سے کرنا ہوتا ہے، اس بات کی فکر چھوڑ دیں کہ سامنے والا مائنڈ کرے گا یا آپ کے بارے میں کچھ غلط سوچے گا، ہرگز نہیں، جب وہ حکم دینے کی بجائے آپ سے کوئی سوال کر رہا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ انکار والا جواب اس کے دماغ میں بھی موجود ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس نے سوال پوچھنا ہی نہیں تھا۔ بسم اللہ کیجیے اور سامنے والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے چٹا انکار کرنے کی پریکٹس کریں۔

اب بیٹھ کے سوچیں کہ آپ ہر کسی کو مطمئن کیسے کر سکتے ہیں؟ مطلب روز آنے والی کتنی فرمائشوں پہ آخر آپ یس بول سکتے ہیں؟ کس لیول تک؟ شاید تب تک جب آپ خود تھک جائیں اور باقاعدہ ٹینشن میں آ جائیں۔ دیکھیں یہ وہی خوف ہے جو ماں باپ شروع سے دل میں بٹھاتے ہیں، دوسروں کے لیے قابل قبول بننے کا خوف، پولائیٹ بننے کا خوف، کسی کا دل نہ دکھانے کا خوف، کسی کو مایوس نہ کرنے کا خوف، کسی کو ناراض نہ کرنے کا خوف یا بداخلاق مشہور ہو جانے کا خوف۔ آپ ہر ایک کو ہاں اس لیے کرتے ہیں کہ آپ ہر ایک سے ڈرتے ہیں (یوں کہہ لیجیے کہ ہر ایک کا دل دکھانے سے ڈرتے ہیں حالانکہ بات ایک ہی ہے) جس وقت آپ نے جی کڑا کے پہلی ”نہ‘‘ کر دی اس وقت آپ کو ایک دم احساس ہو گا کہ آپ کے اندر اپنی ذات پہ اعتماد کس قدر بڑھ گیا ہے۔ اسی وقت آپ ٹھیک سے جان سکیں گے کہ وقت پہ کی گئی ”نہ‘‘ کسی بھی منحوس بے وقتی ہاں سے کتنی زیادہ بہتر ہے۔

آپ زندگی میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں، اچھے آدمی بننا چاہتے ہیں، عظیم کاروباری شخصیت ہونا چاہتے ہیں یا فقیر کی طرح بس ایویں جیسی تیسی زندگی کرنا چاہتے ہیں، ہر ایک مشن کے لیے آپ کو وقت چاہیے ہوتا ہے، وہ سارا وقت تب ملے گا جب آپ دل سے یہ مانیں گے کہ آپ خود اہم ہیں، دوسروں کے مقابلے میں آپ کی ذات کوئی حیثیت رکھتی ہے اور آپ کا فیصلہ بھی اتنی ہی اہمیت رکھ سکتا ہے جتنی کسی دوسرے کی امید… جس لمحے آپ کو یہ آئیڈیا ہو گیا سمجھ لیں کہ آگے کا سارا کام آسان ہے۔ اگر آپ خود کو اہمیت دینا شروع کریں گے تو اپنے فیصلوں کو بھی اہمیت دیں گے۔ جونہی اپنے فیصلوں کو اہمیت دینا شروع کریں گے عین اسی وقت آپ کے لیے ”نہ‘‘ کہہ دینا آسان ہو جائے گا۔ کیوں؟ کیونکہ وہ ”نہ‘‘ اب آپ دل سے کہہ رہے ہوں گے اور یہ جاننے کے بعد کہہ رہے ہوں گے کہ اس نہیں کے نتیجے میں کتنا ڈھیر سارا سکھ آپ کا منتظر ہے۔

سب چھوڑیں یار اگر ایک بار انکار کی ہمت نہیں ہو رہی تو اس تکلیف، دکھ، مصیبت، پریشانی یا عذاب کا سوچ لیں جو ہاں کے نتیجے میں آپ پر مسلط ہونے والا ہے۔ فرض کیا اتوار کے دن آپ کو کسی نے کہیں بلایا ہے۔ اتوار آرام کا دن ہوتا ہے۔ آپ نے حسب عادت فوراً اوکے کر دیا کہ اچھا آ جاؤں گا۔ اب آپ کو عذاب پڑا ہو گا کہ یار ایک ہی دن ملتا ہے سکون کا، وہ بھی تیل ہو گیا، آپ سو بہانے سوچیں گے، آپ جمعے کو بھی سوچیں گے، ہفتے کو بھی سوچیں گے اور اتوار کی صبح آخر کوئی جھوٹی وجہ بتا کے انکار کر دیں گے۔ تو مرشد یہی انکار پہلے کیوں نہیں کر دیا؟ پورا ویک اینڈ سواہ کرکے آپ کو ایسا نادر آئیڈیا کیوں آیا کہ انکار بھی ہو سکتا ہے؟ اس لیے کہ پہلے آپ ذہنی طور پہ انکار کے لیے کمپوزڈ نہیں تھے۔ اب یوں ہے کہ آئندہ کوئی بندہ ایسا کوئی سوال پوچھے گا تو کم از کم یہ کالم تو ذہن میں آئے گا یا نہیں؟ انکار کے لیے دماغی تیاری ایسے ہی چلتے پھرتے ہوتی ہے۔ کبھی غور سے بندہ کسی کو پڑھ بھی لیتا ہے!

یاد رکھیے۔ انکار ڈائریکٹ کرنا ہے، ٹھوک کے، اعتماد سے، پورے موڈ سے اور بغیر کسی بہانے کے، ہاں لہجے میں اتنی نرمی ضرور ہونی چاہیے کہ سامنے والا اطمینان سے رخصت ہو سکے (یا فون بند کر سکے)۔ جھوٹ نہیں بولنا، سیدھی بات کرنی ہے، جھوٹ ایویں سارا دن موڈ خراب رکھے گا۔ اور کوئی مسئلہ نہیں ہوتا وہ جو ضمیر نامی ایک چیز خواہ مخواہ پالی ہوتی ہے جو کوئی بھی غلط کام ٹھیک سے نہیں کرنے دیتی تو بس جھوٹ اس سے بچنے کے لیے مت ہی بولیں، بعد میں ایویں سچائی کی خارش پیدا ہوتی رہے گی۔ یہ بھی نہیں کہنا کہ اچھا اس بارے میں سوچوں گا/گی، ہرگز نہیں، اس طرح فالتو میں بات بڑھانی نہیں ہے، انکار، دستی انکار اور ترنت انکار آپ کی فلاح کا واحد راستہ ہے۔

انکار سے یاد آیا کہ دنیا بھر میں کوئی کام نہ کرنے کے لیے جو بھی لفظ بولے جاتے ہوں، سرائیکی زبان کا ایک لفظ ”کو (مطلب نہیں)‘‘ فقیر کو ان سب پہ بھاری لگتا ہے۔ یہ ایسا اٹل اور دوٹوک انکاری لفظ ہے کہ بس اس کے ساتھ چہرے پہ تھوڑا تاثر لانا ہوتا ہے اور اگلے کو سوال بھی دوبارہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس کی بلاغت کا احساس تبھی ہوتا ہے جب کسی اہل زبان کے ہاتھوں آپ نے یہ لفظ بھگتا ہو۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو دوست سرائیکی نہیں جانتے ان کے لیے اس بات میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہو گی، تو اس باب کو اِدھر ہی بند کرتے ہیں، غرض انکار سے ہے، کسی بھی زبان میں ہو، کرنا سیکھیے، یقیناً چٹا انکار ایک بہترین نعمت ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain