ہیش می ٹو


دُنیا جب سے قائم ہوئی ہے، مرد اور عورت کا رشتہ ایک پاک اور عمدہ رشتہ مانا گیا ہے۔ آدم علیہ السلام اور حوا کے رشتے سے لے کر کے ہزاروں ایسی مثالیں اب بھی پائی جاتی ہیں، جس سے عورت کو سماج اور خاندان کا ایک اہم فرد مانا جاتا ہے۔ عورت کبھی ماں، تو کبھی بیوی، تو کبھی بہن اور نہ جانے کتنے رشتوں اور شکلوں میں ہمارے سامنے ہے۔

زیادہ تر مرد، عورت کی عزّت اور عظمت کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، کہ نیک بن کر رہیں۔ تاہم وہیں مردوں نے عورتوں کو رنڈی، طوائف، بازاری اور اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے مذکور ناموں سے یاد کرتے رہے ہیں۔ عورت کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ عورت سماج کا ایک کم زور طبقہ ہے۔ جس کی وجہ سے انھیں سماجی اور تعلیمی سطح پر امتیازات اور ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عموماً انسانی سماج میں عورت کو ذہنی اور فکری سطح پر کم زور سمجھ کر جانب دارانہ رویہ اپنایا جاتا ہے، لیکن جوں جوں دنیا ترقّی پذیر ہوتی گئی، صنف نازک انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنا پرچم لہرا کر یہ ثابت کر چکی ہے، کہ وہ کسی بھی صورت میں مرد ذات سے پیچھے نہیں۔ چاہے وہ سیاست ہو یا کھیل یا دیگر شعبہ ہائے زندگی۔ اب تو عورت کو باکسنگ رِنگ میں دیکھے جانے سے حیرانی کی بجائے دنیا کو فخر ہونے لگا ہے۔ لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ اب بھی دنیا کے بیش تر ممالک میں عورت کو ہوس کا شکار بنایا جاتا ہے اوران کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

مذہبِ اسلام نے عورتوں کو مساوات کا درجہ دیا ہے اور اسلام ہر انسان کو برابر مانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
”اے لوگو! اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلا دیں‘‘ (النساء 4۔ 1)۔

اسلام مذہب سے پہلے عورت کو ذلت، رسوائی و تحقیر کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے عورت کو اُس ذلت اور رسوائی سے نجات دلائی اور اسے زندہ رہنے کا حق دیا۔ اسلام نے معاشرے میں عورت کے حقوق، فرائض و دیگر مسائل کے لیے سورۃ النساء میں احکامات دیے ہیں۔ جس میں نکاح، طلاق، خلع، وراثت و دیگر مسائل میں رہ نمائی کی گئی ہے اور عورت کی عزت، عصمت کی حفاظت کے لیے پردے کا حکم دیا گیا ہے، تا کہ معاشرے میں پاکیزگی و اخلاقی اقدار برقرار رہیں۔ قرآن پاک میں واضح کہا گیا ہے کہ
”مومن عورتوں سے کہہ دو کہ ان کی آنکھوں میں حیا ہو اور اپنی شرم گاہوں کی پردہ پوشی کریں اور اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کریں‘‘۔ (سورۃ النور)

آج کل عام طور پر دنیا بھر میں عورتیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ کھیل کود اور دنیا کے جتنے لوازمات ہیں، اس میں وہ اپنا نام روشن کر رہی ہیں۔ اس سے ایک اچھی بات تو یہ ہوئی کہ صدیوں سے عورتوں کو مساوات کا جو درجہ نہیں مل پا رہا تھا وہ اب ملنے لگا ہے۔ جس سے عورت اب اپنے مرد کی کمائی پر انحصار نہیں کرتی، بلکہ وہ بھی مرد کی طرح کام کاج کر کے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پال سکتی ہے۔ اگر ہم اپنے گھروں میں نظر ڈالیں تو زیادہ تر کام کرنے والی نوکرانی کسی مجبوری کے تحت کام کرنے آتی ہیں۔ ہم ان پر افسوس کرتے ہیں اور ان کی بے بسی اور مجبوری پر فخر سے انھیں کام دے کر خوش ہو جاتے ہیں، کہ اللہ اس نیک کام کا ثواب دے گا۔ اس کے علاوہ اس نوکرانی کی محنت اور مجبوری سے لوگ اپنی زندگی کو عیش و آرام کی آماج گاہ بنا لیتے ہیں اور بعض دفعہ اس کی عزت سے بھی کھیلتے ہیں۔

ان تمام باتوں کے علاوہ آج کل پوری دنیا میں ”می ٹو‘‘ کی مہم نے اچھے اچھے لوگوں کی زندگی میں ایک طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ حالاں کہ یہ مہم پچھلے کئی برسوں سے پوری دنیا میں ایک طوفان برپا کر چکا ہے، لیکن حال ہی میں جب سے ہندوستان میں اس کی شروعات ہوئی ہیں، کئی معروف اور عزت دار لوگوں کا جینا حرام ہو گیا ہے۔ فلمی دنیا کے مردوں سے لے کر سیاست دان، صنعت کار اور کمپنی کے اعلیٰ عہدے پر فائز لوگوں میں ایک کھلبلی سی مچی ہوئی ہے۔ ہو بھی کیوں نا، کیوں کہ آئے دن یہی خبر مل رہی ہے کہ کسی اداکار یا سیاست دان نے کسی عورت کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر جنسی استحصال کیا ہے۔ اب اس کا نتیجہ یہ سامنے آ رہا ہے کہ یا تو ایسے لوگوں کی بیویاں سامنے آ کر اپنے شوہر کی نیک یا شریف ہونے کا دعویٰ کر رہی ہیں یا یہ بدنام مرد عدالت لے جانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔

بی بی سی نے بھی اس خبر کو کافی تفصیل سے شایع کیا ہے اور اس میں ملوث لوگوں کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا ہے۔ تاہم ”می ٹو‘‘ سے سب سے زیادہ پریشان بھائی ایم جے اکبر لگ رہے ہیں۔ حضرت انگریزی اخبار کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں اور اب وہ ایک سیاست دان اور وزیر بھی ہیں۔ اس سے قبل مسلمانوں کے کئی ادارے کے اعلیٰ عہدے پر فائز بھی رہ چکے ہیں۔ ان پر الزام یہ ہے کہ جب وہ ایک نام ور صحافی تھے، تو انھوں نے ایک خاتون صحافی پریا رامانی کا جنسی استحصال کیا تھا۔ تاہم پریا رامانی نے اپنے مضمون میں ایم جے اکبر کا نام نہیں لکھا تھا، لیکن بعد میں انھوں نے اپنے ٹوئیٹ میں اس کا انکشاف کیا ہے کہ مضمون ایم جے اکبر ہی کے حوالے سے ہے۔ اس کے بعد پانچ اور خواتین نے سامنے آکر ایم جے اکبر پر جنسی استحصال کا الزام لگایا ہے۔

”می ٹو‘‘ ایک ایسی مہم ہے، جس کے تحت مظلوم عورت ’میں بھی‘ کہہ کر اپنی زندگی کا وہ افسوس ناک واقعہ بیان کرتی ہے اور جس کے تحت می ٹو ادارہ قانونی کارروائی کرنے کے لیے ان مظلوم عورتوں کی حمایت کرتا ہے۔ اس کی فاؤنڈر سماجی کارکن اور کمیونٹی آرگنائزر ترانا برک ہیں، جو نیویارک کی رہنے والی ہیں۔ انھوں نے عورتوں کو جنسی استحصال اور عصمت دری کے شکار ہونے پر ہم دردی کے ذریعے طاقتور بنانا چاہتی تھی۔ جس کے لیے انھوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے #Me Too ٹوئیٹ شروع کیا اور بارہ سال بعد انھیں اس بات کا علم ہوا کہ لگ بھگ پانچ سو عورتیں ”می ٹو‘‘ کا پیچھا کرنے لگی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”آپ کو دوسروں کی خدمت کرنے کے لیے اپنے اختیار کا استعمال کرنا ہو گا‘‘۔

عصمت دری یا جنسی استحصال کو دنیا نے ہمیشہ ایک گھناؤنا جرم مانا ہے۔ کئی ممالک میں مذہبی طور پر اس کی سخت سزا بھی ہے۔ لیکن آج بھی بہت سارے مرد اپنی طاقت اور عورت کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اسے اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں۔ زیادہ تر عورتیں سماجی دباؤ اور طاقتور مردوں کے خوف سے خاموش ہو کر زندگی جینے کے لیے مجبور ہو جاتی ہیں۔ لیکن می ٹو کی مہم نے شاید دنیا کے ان جنسی ہوس بھیڑیے نما انسانوں کو دنیا کے سامنے لانے کا جو بِیڑا اٹھا یا ہے وہ قابلِ ستایش ہے۔ ویسے یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے کیوں کہ بات جب عدالت تک پہنچے گی تو ایسے مرد حضرات اپنی طاقت اور دولت کے بنا پر اپنا دامن بچا لیں گے۔

”می ٹو‘‘ کی تحریک سے دنیا بھر کی ان عورتوں کو حوصلہ ملا ہے، جو اپنی مجبوری اور بے بسی کی وجہ سے اُن مردوں کی ہوس کا شکار ہو گئی تھیں۔ اب ان عورتوں کو می ٹو کے ذریعے حوصلہ اور ہمت ملے گی تا کہ وہ با اختیار ہو کر آگے آئیں اور ان مردوں کا پردہ فاش کریں، جو سماج میں اپنی پوزیشن اور طاقت کی بنا پر انھیں اپنی ہوس کا شکار بنا رہے تھے۔ لیکن میں وہیں اس بات سے بھی افسردہ ہوں کہ کیا ان عورتوں کو بھی انصاف ملے گا جنھیں می ٹو کا کوئی علم نہیں ہے یا ان کی رسائی سوشل میڈیا تک نہیں ہے؟

میں ان تمام خواتین کے ساتھ ہم دردی رکھتا ہوں، جن کے ساتھ لوگوں نے جنسی استحصال اور عصمت دری کیا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ایسے مرد اخلاقی طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں۔ پولیس کو اس معاملے کی جانچ کرنی چاہیے تا کہ ایسے لوگوں کو سزا ملے اور خواتین عزت و احترام اور بلا خوف اپنی زندگی گزاریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).