پاکستانی نکاح نامے میں کیا اہم ترین تبدیلی ہونے والی ہے؟


پاکستان میں اب عورتیں بھی جلد شوہروں کو طلاق دے سکیں گی۔ ایک حکومتی تیار کردہ دستاویزکے مطابق انہیں عدالتوں سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ گوکہ اسے پاکستان کے موجودہ قوانین کے تحت شادی کی دستاویز (نکاح نامہ) میں درج کیاگیا ہے۔ شادی کے موقع پر دلہن کو کبھی یہ ’’سہولت‘‘ فراہم نہیں رہی۔ وہ عدالت کے ذریعے ہی خلع مانگ سکتی ہے۔ جو ایک مہنگا اور دقت طلب عمل ہے۔ نکاح نامے میں مجوزہ تبدیلیوں کے تحت اس کی زبان تبدیل کر کے عورتوں کے حقوق کو واضح کیا گیا ہے جس میں شادی کرنے والے کو شادی تحلیل کرنے کے حق پر دلہن سے رجوع کرنے کا پابند کیا گیا ہے چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز کے مطابق خلع میں شوہر کی رضامندی لینا لازمی ہے لیکن اس شرط کو ختم کردینے سے شوہر کی رضامندی کی ضرورت نہیں رہے گی۔ خواتین دوست نکاح نامہ کا نیا مسودہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ریسرچ ونگ نےتیار کیا ہےجسے جید علمائے کرام اور فیملی لا کے ماہرین کی مشاورت سے حتمی شکل دی جائے گی۔ قبلہ ایاز نے بتایا کہ نکاح نامہ 1960 میں مرتب کیا گیا تھا یہ اب اکیسویں صدی کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ نئے مسودے کے تحت نکاح خواں کی ذمہ داریوں کو بھی واضح کر دیا گیاہے۔ نئے مسودے میں دوسری شادی کیلئے پہلی بیوی کی لازمی رضامندی کے الفاظ کو

واضح طورپر شامل کیا گیا ہے۔ قبلہ ایاز نے کہاکہ مسلم فیملی لاء آرڈیننس 1961 خواتین کو متعدد اہم حقوق دیتا ہے لیکن اس حوالے سے الفاظ نکاح نامے میں واضح طور پر درج نہیں ہیں۔ اکثر دلہنوں کو پیشگی بھری گئ نکاح نامے کی دستاویز پکڑا دی جاتی ہے جبکہ اسلامی تعلیمات کے تحت شرائط اور مندرجات کو زیربحث لا کر حجت تمام کرنا لازمی ہے۔ مجوزہ نئے نکاح نامے کے علاوہ مطلقہ عورتوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے نیا طلاق نامہ بھی مرتب کیا گیا ہے۔ مردوں کو ایک نشست میں تین طلاق دینے سے روکنے کیلئے بھی سفارشات تیار کی جا رہی ہیں انہوں نے کہاکہ نئی سفارشات تیار کرنے سے قبل بھارت کے مسلم پرسنل لا کا بھی جائزہ لیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).