رام مندر کے لیے قانون، وزیر اعظم مودی کے سیاسی ترکش کا آخری تیر


بابری مسجد

بابری مسحد کو ہندو قوم پرستوں ن چھ دسمبر 1992 کو منہدم کردیا تھا

انڈیا میں ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایودھیا میں بابری مسجد کے متنازع مقام پر رام مندر کی تعمیر کے لیے پارلیمنٹ میں قانون بنائے۔

مندر مسجد کا یہ طویل تنازع مختلف عدالتوں سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ پہنچ چکا ہے۔ عدالت عظمی اس مقدمے کی سماعت اس مہینے کے اواخر سے شروع کر رہی ہے۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ عدالت جلد ہی اس مقدمے کا فیصلہ سنا سکتی ہے۔ عدالت میں یہ مقدمہ زمین کے تنازعے کا ہے۔ اسے اس امر کا فیصلہ کرنا ہے کہ وہ زمین جس پر چھ دسبمر سنہ 1992 تک بابری مسجد کھڑی تھی، اس زمین کی ملکیت کس کی ہے۔ یہ فیصلہ کسی کے بھی حق میں جا سکتا ہے۔

دو ہفتے قبل سخت گیر ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد کے زیر اہتمام ملک کے سرکردہ ہندو سادھوؤں اور سنتوں کی ایک کانفرنس دلی میں منعقد ہوئی تھی۔ ان سادھوؤں نے بھی حکومت سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے آئندہ سرمائی اجلاس میں رام مندر کی تعمیر کے لیے قانون منظور کرے۔

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی طرف سے بھی قانون بنانے کے مطالبے کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ حکمراں جماعت بی جے پی آر ایس ایس کی سیاسی شاخ ہے۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز آر ایس ایس کے نظریے کی ترویج و تبلیغ سے کیا تھا۔ کیا مودی حکومت عدالت عظمی کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر مندر بنانے کے لیے قانون بنانے کی طرف بڑھ رہی ہے؟

یہ بھی پڑھیے

ایودھیا کا تنازع زندہ کرنے کا الزام

بابری مسجد مقدمہ: ہندو فتح کے، مسلمان انصاف کے منتظر

جب مسلمانوں کے پیروں سے زمین کھسک گئی

الیکشن جیتنے کے لیےبی جے پی کو بابری مسجد کی ضرورت

بی جے پی اوراس کی ہمنوا جماعتوں اور تنظیموں میں یہ تاثر گھر کر رہا ہے کہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت ملنا مشکل ہے۔ اس لیے موجودہ مودی حکومت کا یہ دور ایودھیا میں مندر کی تعمیر کا واحد سنہری موقع ہے۔ اگر مودی حکومت اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھاتی اور اسے آئندہ حکومت پر چھوڑ دیتی ہے تو اس سے اس کی ایک ہندو نواز جماعت کی شبیہ مجروح ہو گی اور اسے انتخابات میں بھی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

ایودھیا کی متنازع زمین کے اطراف کی ایک بڑی آراضی مرکزی حکومت کافی پہلے قانون بنا کر اپنی تحویل میں لے چکی ہے۔ اگر مودی حکومت مندر بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں کوئی بل پیش کرتی ہے تو اس کی منظوری کے لیے اسے اپوزیشن کی حمایت کی بھی ضرورت پڑےگی۔

اپوزیشن جماعتیں بحث ومباحثے میں یہ تو ضرور کہیں گی کہ حکومت کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے لیکن وہ اس بل کی مخالفت کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ کیونکہ اس صورت میں بی جے پی انھیں ہندو اور مندر مخا لف قرار دے گی۔

یہ بل اگر حزب اختلاف کی جماعتوں کی حمایت نہ ملنے کے سبب منظور نہ ہو سکا تو یہ پارلیمانی انتخابات کا سب سے اہم موضوع ہوگا جس میں بی جے پی عوام کو یہی بتائے گی کہ یہ جماعتیں ہندو مخالف ہیں اور ان کی مخالفت کی وجہ سے رام مندر نہیں بن سکا۔ اپوزیشن کے لیے یہ صورتحال انتخابی طور پر تباہ کن ہوگی۔

بابری مسجد

مسلمانوں کو عدالت سے انصاف کی توقع ہے جب کہ ہندو اپنی فتح کے اعلان کا انتظار کر رہے ہیں.

مودی کی قیادت میں بی جے پی نے اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کی توقعات کو بہت اونچائی پر پہنچا دیا تھا۔ پانچ سال کے اپنے دور اقتدارمیں وہ بیشتر لوگوں کی توقعات پر پوری نہیں اتری۔ حکومت نے ایسا کوئی بڑا کام نہیں کیا جسے وہ آئندہ انتخابات میں اپنی بڑی کامیابی کے طور پر عوام کے سامنے پیش کر سکے۔

بی جے پی کے پاس رام مندر ہی سیاسی ترکش کا آخری تیر ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے یا قانون بنا کر، کسی بھی صورت میں اگر وہ مندر بنانے میں کامیاب ہوگئی تو یہ قدم آئندہ انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کو نئی سیاسی زندگی دے سکتا ہے۔

اسی لیے سنہ 2019 کے انتخابات سے قبل مندر کی تعمیر کا سوال رفتہ رفتہ زور پکڑ رہا ہے۔ سیاسی منطق کا تجزیہ کریں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں رام مندر کی تعمیر کے لیے قانون بنانے کی تحریک زور پکڑنے والی ہے اور مذہب کی اس تلخ سیاست میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی جماعتیں بھی ہندو قوم پرستی کی لہر کی زد میں ہوں گی۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32544 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp