سعودی معصوم ہیں، خاشقجی اپنی موت کا خود ذمہ دار ہے


دنیا بھر میں ہنگامہ مچا ہوا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو سعودی حکومت نے مروا دیا ہے۔ طرح طرح کے الزامات لگ رہے تھے لیکن آج سعودی حکومت نے اصل بات بتا دی ہے جس پر صدر ٹرمپ کے علاوہ سعودی عرب کے دیگر تمام دوستوں کو بھی یقین آ رہا ہے۔

یہ معاملہ دو اکتوبر کو شروع ہوا تھا جب خاشقجی طلاق کے کاغذات لینے استنبول میں سعودی قونصل خانے میں گئے تھے۔ باہر اپنی منگیتر کو کھڑا کر گئے کہ تم میرا فون سنبھالو میں بس گیا اور آیا۔ ہاں اگر کوئی دیر سویر ہو گئی تو پولیس کو بلا لینا۔ دیر سویر ہو گئی اور پولیس آ گئی۔ قونصل خانے والوں سے پوچھا گیا کہ یور ایکسیلینسی، خاشقجی کہاں ہے؟ قونصل خانے والوں نے بتا دیا کہ وہ منگیتر باہر کھڑی دیکھ کر پچھلے دروازے سے چلے گئے تھے، ہمارے پاس کوئی ویڈیو تو نہیں ہیں لیکن ہم معزز لوگ ہیں، ہمارے الفاظ پر یقین کر لو۔ یاد رہے کہ سعودیوں نے ہرگز بھی یہ نہیں کہا تھا کہ خاشقجی اپنے پیروں پر چل کر پچھلے دروازے سے گیا ہے یا کسی ڈبے میں بند ہو کر اس لیے ان پر غلط بیانی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا ہے۔

ترک کچھ سرپھرے سے ہیں۔ سعودیوں سے ان کی لگتی بھی ہے۔ وہ فساد کرنے لگے کہ ہمارے پاس ویڈیو آڈیو ریکارڈنگ ہے کہ خاشقجی کو قتل کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی وہ میڈیا کو اس ریکارڈنگ کے بارے میں خبریں بھی لیک کرنے لگے۔ یہ بھی بتایا کہ خاشقجی کی آمد سے پہلے دو جہازوں پر سعودی عرب سے 15 بندوں کی ٹیم بھی آئی تھی جس میں ایک ڈاکٹر بھی شامل تھا جو ہڈیاں کاٹنے والی آری ساتھ لایا تھا۔ باقی ٹیم میں ایسے افراد بھی شامل تھے جو سعودی ولی عہد کے بہت قریب ہیں۔

دنیا میں شور مچ گیا کہ خاشقجی کو قتل کیا گیا ہے۔ حالانکہ سعودیوں نے بعد میں یہ کہہ کر مطمئن بھی کیا تھا کہ ممکن ہے کہ ہمارے ایسے لونڈوں نے کچھ کر دیا ہو جو ہمارے کہے میں نہیں ہیں، لیکن امریکی میڈیا اور ترک کوئی معقول بات سننے پر آمادہ نہیں تھے۔ آج سعودی عرب نے بات مزید واضح کر دی۔

بتایا کہ ایک عمومی حکم دیا گیا تھا کہ بیرون ملک مقیم ایسے تمام لوگوں کو واپس لایا جائے جو عظیم تر ملکی مفاد کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ تو جب استنبول کے قونصل خانے نے بتایا کہ خاشقجی اپنی طلاق کے کاغذ لینے آ رہا ہے تو جنرل عسیری نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے 15 جنگجو کمانڈو بھیج دیے۔ خاشقجی نے جب یہ 15 دشمن دیکھے تو دیکھتے ہی ان پر ٹوٹ پڑا۔ نہ صرف ان پندرہ کے پندرہ بندوں کو پیٹنا شروع کر دیا بلکہ ساتھ ساتھ یوں چیخنے بھی لگا جیسے وہ پندرہ بندوں کو نہ مار رہا ہو بلکہ پندرہ بندے اسے مار رہے ہوں۔ اس پر ایک کمانڈو نے اپنی جانے بچانے کے لیے خاشقجی کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا اور پھر اس کی لاش ایک مقامی کارندے کو ٹھکانے لگانے کے لیے دے دی اور اب انہیں نہیں خبر کہ لاش کہاں ہے۔

دیکھیں کتنا سادہ سا معاملہ ہے۔ صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ ان کو اس بیان پر یقین ہے۔ باقی دنیا کو بھی یقین کرنا چاہیے۔ ہاں کچھ لوگ اعتراض کریں گے کہ ٹیم کے ساتھ پوسٹ مارٹم والا ڈاکٹر کیوں بھیجا گیا تھا۔ کوئی بھی ذی شعور شخص غور کرے تو وہ اس کی وجہ جان سکتا ہے۔ بظاہر سیدھا سادہ، نرم مزاج اور سست الوجود سا دکھنے والا خاشقجی ایک اتنا خطرناک شخص تھا کہ وہ تن تنہا پندرہ کمانڈوز پر ٹوٹ پڑا۔ ظاہر ہے کہ ایسا خطرناک شخص کسی کمانڈو کو زخمی بھی کر سکتا تھا اور مار بھی سکتا تھا۔ اس لیے پوسٹ مارٹم والے ڈاکٹر کو بھیجا گیا ہو گا کہ جو کمانڈو زخمی ہو اس کی مرہم پٹی کر دے اور جو مر جائے اس کا پوسٹ مارٹم۔

سعودی وضاحت کے بعد صدر ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس کی طرح پوری دنیا کو اس بات پر یقین کر لینا چاہیے کہ خاشقجی نے پہلے ان پندرہ سعودی کمانڈوز کو مارا ہو گا، جب وہ بے ہوش ہو گئے ہوں گے تو اس نے ڈاکٹر سے آری چھین کر خود اپنی انگلیاں کاٹ لی ہوں اور اس کے بعد اپنا باقی جسم بھی کاٹ لیا ہو۔ یاد رہے کہ ترک میڈیا بتا رہا ہے کہ جس وقت خاشقجی کا جسم کاٹا جا رہا تھا اس وقت وہ زندہ تھے۔

جہاں تک یہ سوال ہے کہ خاشقجی ان پندرہ افراد کو دیکھتے ہی کیوں ان پر مکے برسانے لگا تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ طلاق کے کاغذ لینے گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ان پندرہ کمانڈوز میں مطلقہ لڑکی کے بھائی بھی ہوں۔ لڑکی کے بھائیوں کے ساتھ صحافیوں کا جھگڑا ہوتا ہی رہتا ہے۔ انہیں دیکھتے ہی خاشقجی مشتعل ہو گیا ہو گا۔ ورنہ ایک عام سا شخص بھلا کہاں پندرہ تربیت یافتہ لوگوں سے اس طرح لڑائی چھیڑتا ہے۔

بہرحال دنیا کو سعودی بادشاہ پر اعتماد کرنا چاہیے۔ وہ انصاف کے رکھوالے ہیں اور ویسے ہی جذبے سے انصاف کی رکھوالی کریں گے جیسے بلی اپنی عزیز ترین شے یعنی دودھ کی رکھوالی کرتی ہے۔ پہلے قدم کے طور پر شہزادے ایم بی ایس کو انہوں نے انٹیلی جنس کو منظم کرنے کے منصوبے کا انچارج بنا دیا ہے اور قاتل ٹیم کے پندرہ اراکین کے علاوہ ایک ڈرائیور کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ سعودی وضاحت کے بعد ساری دنیا کو مان لینا چاہیے کہ سعودی معصوم ہیں، خاشقجی اپنی موت کا خود ذمہ دار ہے۔ کم از کم ان ممالک کو تو مان لینا چاہیے جو سعودیوں سے تیل خریدنا، ادھار لینا یا اسلحہ بیچنا چاہتے ہیں۔

اس وقت ساری دنیا سعودی عرب کو تنہا چھوڑ رہی ہے۔ چند ہفتوں بعد ہونے والی ایک اہم سعودی معاشی کانفرنس کا دنیا بھر کے ممالک اور اداروں کے سربراہان، وزرا اور اہم میڈیا ہاؤس بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم نے دیرینہ دوستی کے سبب سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ویسے تو سعودی ہمارے نہایت عزیز بھائی ہیں لیکن ان کی محبت سے محتاط رہنا چاہیے۔ پچھلے برس لبنان کے وزیراعظم سعد حریری کو سعودیوں نے سرکاری مہمان بنا لیا تھا اور سعد حریری اس سلوک سے اتنے زیادہ متاثر ہوئے کہ انہوں نے وزارت عظمی سے استعفی دے دیا کہ میں نے اب لبنان واپس نہیں جانا یہیں رہوں گا۔

اس موقعے پر صیہونی میڈیا نے الزام لگایا تھا کہ سعد حریری کے ساتھ کچھ مار پیٹ کی گئی تھی لیکن ایسی رپورٹوں پر ہمیں اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ وہ صرف ہمیں ڈرانا چاہتے ہیں۔ بہرحال مناسب ہو گا کہ ہمارے وزیراعظم بھی ملاقات کے لیے جاتے ہوئے باہر کسی عزیز کو کھڑا کر دیں کہ آنے میں دیر ہو تو پولیس کو بتا دینا ورنہ مجھے استعفی نہ دینا پڑ جائے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar