دلہن بننا منع ہے


\"munawar زینت کی ماں پر خون سوار تھا اور غصے اور طیش کی وجہ سے اس کی ممتابیٹی کے مرنے سے پہلے ہی مر چکی تھی اس پر سکی بیٹی کا خون سوار تھا غصے اور طیش کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے زینت کی ماں کے ایک ہاتھ میں مٹی کا تیل اور دوسرے میں ماچس تھی۔ سترہ سالہ ایک ہفتے کی دلہن زینت ماں کا یہ ناقابل یقین روپ دیکھ رہی تھی اور انتہائی خوفزدہ تھی زرد چہرہ تھا اور اس کے لبوں سے جو الفاظ نکلے تھے وہ یہ تھے کہ ماں ایسا مت کرو، ماں ایسا مت کرو مجھے مت مارو اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے زینت کہ یہ الفاظ خوفناک چیخوں میں بدل گئے اور پھر آہستہ آہستہ چیخیں مدھم ہوتی گئیں اور بل آخرزینت کی روح بھی انیس سالہ ماریہ، سولہ سالہ امبر کی روحوں کے ساتھ جا ملی جنہیں ایبٹ آباد اور مری میں مئی کے مہینہ میں زندہ جلا دیا گیا تھا عینی شاہدین نے بتایا کہ ایک گھنٹہ تک زینت کے گھر سے چیخنے چلانے کی آوازیں آتی رہی تھیں گویا اس کی ماں یہ لرزہ دینے والا منظر دیکھتی رہی ۔ ایک ہفتہ کی دلہن بیٹی کو سرخ جوڑے میں الوداع کہنے کے وعدے پر اسی گھر میں اسے جلا کر خاکستر کردیا جہاں کبھی وہ بھاگا پھرتی ہوگی، امی امی کہتی ہو گی۔ محلے والوں نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس کے آنے پر اس کی جلی نعش سیڑھیوں پر پڑی تھی۔ لڑکی کے شوہر نے میڈیا کو بتایا کہ لڑکی کی والدہ اور اس کے اہل خانہ اسی شرط پر زینت کو گھر لے گئے تھے کہ وہ جمعہ کو باقاعدہ اہتمام سے رخصت کریں گے لگتا یہی ہے کہ پاکستان کے تنگ نظر اور مذہبی رحجان رکھنے والے معاشرے میں لڑکی کا پسند سے دلہن بننا بھی جرم بنتا جا رہا ہے

حالیہ ہفتوں میں لڑکی کو زندہ جلانے کا تیسراواقعہ ہے اور یہ رحجان انتہائی خطرناک ہے جس کو روکنے کی ضرورت ہے گزشتہ ماہ ایبٹ آباد میں ایک سولہ سالہ امبرین نامی لڑکی کو جرگہ کے حکم پر زندہ جلادیا گیا تھا، اسی طرح مری میں بھی ایک انیس سالہ ماریہ کو تشدد کے بعد زندہ جلا دیا گیا اس کے پس منظر میں بہت سی وجوہات ہیں لیکن سب سے زیادہ اور بڑی وجہ پسند اور نا پسندکی ہے جب لڑکی جب اپنی پسند کی شادی کرتی ہے تو جلتی ہے اور جب وہ گھر والوںکی پسند سے انکار کرے تو بھی جلتی ہے۔ معصوم لڑکیوں کا اپنی پسند کی شادی کی خواہش ہی جرم بن گئی جس نے ان کو آگ کا ایندھن بنا دیا ،جرم کرتا کوئی ہے لیکن اس کی سزا لڑکی یا عورت کو ملتی ہے کبھی لڑکی جرگوں کے فیصلے کی نذر ہو کر زندہ جلا دی جاتی ہے اور کبھی خود گھر والے غیرت کے نام پر جگرکے ٹکرے کو جلادیتے ہیں اگر لڑکی کا رشتہ کہیں اور ہو جاتا ہے تو بھی انتقام کا نشانہ لڑکی ہی بنتی ہے دو مردوں بیچ لڑائی ہو تو تو بھی گالی عورت کو ملتی ہے اور یہ اس معاشرے کی بھیانک تصویر ہے جہاں قدم قدم پر مساجد تعمیر ہو رہی ہیں، در و دیواروں حتی کی درختوں پر بھی لکھا ہوتا ہے کہ مجھے دعوت اسلامی سے پیار ہے جبکہ حقیقت میں صرف نام ہی کے مسلمان ہیں ۔اڑتالیس فیصد کی آبادی کو قوم نے خود اپنے ہاتھوں سے جلا کر بھسم کرنا شروع کردیا ہے ۔ جس ملک کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں وہاں کا وزیر دفاع عورت کو ٹریکٹر ٹرالی ایسے لقب سے پکارے، ایک عالم دین لائیو ٹی وی شو میں عورت کی شلوار اتارنے کی بات کرے تو وہاں لڑکی کو زندہ جلا دینا کونسی اچنبھے کی بات ہو سکتی ہے اس بارتو لاہور میں ظلم کی حد ہی ہو گئی ایک ماں نے اپنی کوکھ سے جنم دے کو خود اپنے ہاتھوں ہی سے بیٹی کو زندہ جلادیا ایک ماں اس حد تک جا سکتی ہے اس کا تصور بھی نہ تھا یہ ایک انتہائی بیمار معاشرہ کی نشاندہی ہے جو اکیسویں صدی میں بھی جہالت کی دلدل میں دھنس چکا ہے اس سے پہلے مذہب اور عقیدہ کے نام پر عورت اور لڑکیوں کو زندہ جلایا گیا اور اب شادی کے نام جلایا جا رہا ہے۔ اس قسم کی ایک رسم ماضی میں بھارت میں ہوا کرتی تھی یہ رسم ستی کے نام سے مشہورہے اس میں اس عورت کو زندہ جلادیا جاتا تھاجس کا شوہر اگر فوت ہو جائے اب یہی رسم غیرت کے نام پر پاکستان میں پھلتی پھولتی دکھائی دیتی ہے۔

پاکستان میں اب یہی لگتا ہے کہ کوئی عدالت نہیں لگتی جو انسانوں کی حفاظت کرے اور ایک وحشت ہے جو پورے پاکستان میں رقص کر رہی ہے اس وقت تمام اقوام عالم میں انسانی ترقی ہو رہی ہے لیکن ہمارا ملک واحد ملک ہے جو مسلسل اتھاہ گہرائیوں میں ہی گرتا جا رہا ہے

 پاکستان کے لوگوں کی ذہنی نشو نما جن خطوط پر مولوی اور نظام تعلیم کر رہا ہے اس کی برکتوں سے آج حوا کی بیٹی کا پاکستان میں آج کوئی پرسان حال نہیں ہے پاکستان کے اندر اسلامی نظریاتی کونسل کی موجودگی کے بعداب پاکستان کوکسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں رہی اس نے اپنے فیصلوں سے ملک کی فضا ایسی بنا دی ہے جہاں ہر طرف، ہر وقت عورت خطرات ہی میں گھری رہے گی ۔اس پر تشدد بڑھے گا اب تک کہ ایسے واقعات پر کسی بھی عالم یا مذہبی جماعت نے ان کی مذمت نہیں کی جس سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ ان کی دانست میں یہ سب کچھ درست ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ ہر قسم کی زیادتیوں کی ایک اہم وجہ معاشرے کا مولویوں کے زیر اثر ہونا بھی ہے۔ لاہور کا واقعہ اس قدر سنگین اور ناقابل یقین ہے کہ اس کی بازگشت نہ صرف وزیراعظم ہاﺅس تک جا پہنچی بلکہ سینٹ میں بھی اس کا نوٹس لیا ہے وزیراعظم نے واقعہ کی رپورٹ طلب کی ہے جبکہ سینٹ میں ممبران نے عورتوں کے زندہ جلائے جانے واقعات پر بحث کرتے ہوئے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ معاشرے میں بچوں کو زندہ جلانے کا رحجان بہت خوفناک ہے اور معاشرے کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے سینٹ کے مختلف اراکین نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہم سماجی پسماندگی کی طرف جا رہے ہیں ایسءواقعات دہشت گردی ہیں قانون سخت نہ کیا گیا تو ایسے واقعات کو روکنا ممکن نہ ہوگا جمعرات کو سینٹ چئیرمین نے ہاﺅس کی توجہ اس طرف مبذول کرائی تھی کہ پچھلے چند دنوں سے بچیوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے یہ نہایت افسوسناک اور اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے اور اس کو قابل تعزیر جرم قرار دینا چاہئے اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن صاحب نے کہا آج کی خوفناک خبر یہ ہے کہ ماں نے اپنی بیٹی کو زندہ جلادیا اور پھر اعتراف بھی کر رہی ہے عنبرین کو سوات اور ماریہ مری میں جلائی گئی اور زینت تیسری بیٹی ہے جس کو خوفناک انجام تک پہنچایا گیا سینٹر ژیری رحمان نے کہا کہ لڑکیوں کا استحصال کیا جا رہا ہے اس کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے سینٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اسلام سے پہلے بچیوں کو زندہ درگو کر دیا جاتا تھا اب ان کو جلایا جا رہا ہے اور تسلسل کے ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل خواتین اور بچیوں کے خلاف سفارشات دے رہی ہے

 یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ سینٹ میں لڑکیوں کے زندہ جلائے جانے کا نوٹس لیا گیا ہے اور چئیرمین سینٹ کی طرف سے اس معاملہ کو فنکشنل کمیٹی آف ہیومن رائٹس کو پورے ہاﺅس کی آرا، اپوزیشن لیڈر اور قائد ایوان کی مشاورت سے بھیجا جا رہا ہے۔ معاشرے کو اس ضمن میں جھنجھوڑنے کی بھی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments