چلو چلو لنڈا بازار چلو


آپ اگر کبھی لنڈا بازار نہیں گئے اور آپ کو لنڈے کے نام اور مخصوص بو سے کراہیت محسوس ہوتی ہے تو اب آپ خود کو تھوڑا سا بدلیں اور خود غرضی چھوڑیں اپنی ذات اور خاندان کے دائرے سے باہر نکل کر اپنے اس پاس والوں کے لیے بھی کچھ سوچا کریں آپ کنویں کے مینڈک نہیں اشرف المخلوقات کا خطاب پانے والے خاص انسان۔ ہیں اور خاص انسانوں کو ہی اپنے ارد گرد کے عام دکھ نظر آتے ہیں غور کرنے پر اپنے معاشرے میں معاشی بدحالی کی ایسی تصاویر دیکھائی دیتی ہیں کہ بے ساختہ آہ لبوں پر مچل اٹھتی ہے

چلیں آج فقط اپنی ذات سے باہر نکل کر آئینے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں خود کو غور سے دیکھتے ہوئے اپنے مشہور زمانہ برینڈ کے گرم مرینے والے سوٹ اور برینڈڈ ہی سویٹر و دیگر گرم کپڑوں کو دیکھ کر خود سے مخاطب ہوتے ہیں اور اپنے عکس کو اک مشہور شعر کا مصرعہ سناتے ہیں۔

سنو ایسا نہیں کرتے۔
وہ آپ سے پوچھے گا کہ پھر کیسا کرتے ہیں؟ تو سنیں ایسا کرتے ہیں۔
سردیوں کی آمد آمد ہے۔

اپنی قریب کی نظر تیز کیجیے چشمے کا نمبر بڑھا کر نہیں نہ ہی گاجریں کھا کر۔ بلکہ خود غرضی کی پٹی اپنی آنکھوں سے ہٹائیں اور محبت اور ہمدردی کے چند قطرے آنکھوں میں ڈالیں تو سب کچھ صاف صاف نظر آنے لگے گا۔

پلاسٹک کی پھٹی چپلوں میں پھٹی ایڑیوں والے پاوں جنہیں جرابیں دستیاب نہیں۔

پھٹے پرانے کپڑے جو صرف تن ڈھانپنے کے کام آتے ہیں وہ موسموں کے ستم سے ان مجبوروں کو بچا نہیں پاتے۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ عمران خان کی طرح صرف کپڑے پہنتے ہیں گرمی اور سردی کے کپڑے الگ الگ نہیں بنا پاتے۔ اک عام خیال یہ ہے کہ غریب لوگوں کے لیے لنڈا بازار موجود ہے وہ چند سو میں گرم کپڑے خرید سکتے ہیں چند سال پہلے ایسا ہوتا ہوگا لیکن اب ایسا نہیں ہے

اس لیے پہلے سارے حالات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور پھر اپنے قریبی لنڈا بازار کا رخ کریں۔ اور یہ سوچیں کہ یہ جو لنڈے کے کپڑے ہیں اب یہ بھی غریب کی دسترس سے بہت دور ہو چکے ہیں اب جیسے بڑی بڑی دوکانوں کے شیشوں سے فقط ونڈو شاپنگ کرتے تھے یہ لوگ ویسے ہی لنڈے کے ڈھیر میں سے اپنی ضرورت کی چیز ڈھونڈنے کے بعد قیمت اپنی استطاعت سے باہر پاکر افسوس سے سر ہلاتے ہوئے واپس چلے جاتے ہیں۔

آپ جب لنڈا بازار جائیں گے اور ایسے مناظر دیکھیں گے تو اس تلخ ترین حقیقت کا ادراک ضرور ہوگا کہ لنڈا بازار بھی اب غریب اور سفید پوش کی دسترس سے دور ہو چکا ہے۔ جو سویٹر دو سوروپیہ میں پچھلے سال بھی مل جاتا تھا اس سال وہ چار سے پانچ سو کے درمیان مل رہا ہے۔ دوکاندار قیمت کم کرنے کے اصرار پر پاکستانی سیاست، روپیہ اور ڈالر کی قیمت میں فاصلے، اور ورلڈ بینک کے قرضے سے لے کر عالمی حالات حاضرہ پر ایسا سیر حاصل تبصرہ کرتے ہیں کہ بے اختیار جی چاہنے لگتا ہے کہ ٹاک شوز کے سارے اینکرز جن میں طلعت حسین اور وسیم بادامی بھی شامل ہیں کو اٹھا کر لنڈا بازار کی تھلی پر بیٹھا دیا جائے۔ اور ان لنڈے والوں کو وہی کوٹ پہنا کر جو وہ بیچ رہے ہیں چینلز پر بیٹھا دیا جائے۔

اچھا اب ہم نے کرنا یہ ہے کہ آپنے وقت سے چند گھنٹے اور اپنی ضروریات میں سے کچھ پیسے نکال کر بہت سی دعائیں اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ کچھ سویٹرز تیز رنگوں اور وزن یا موٹائی میں ذرا ہلکے قسم کے خریدنے ہیں۔ تیز رنگ اس لیے کہ کام کاج کے دوران جلدی میلے نہ ہوں داغ دھبے نہ لگیں اور صابن کا خرچ بھی کم ہو۔ ہلکے قسم کے اس لیے کہ غریبوں کے گھروں میں نہ دھوپ وافر مقدار میں دستیاب ہوتی ہے نہ ہی کپڑے سکھانے کے لیے ڈرائیر موجود ہوتے ہیں اس لیے بہت موٹے کپڑے کئی کئی دن میں سوکھتے ہیں۔

جرابیں لنڈے میں زیادہ تر سفید یا ہلکے رنگوں میں دستیاب ہوتی ہیں لیکن ذرا سا ڈھونڈنے سے تیز نیلے اور کالے رنگ کی جرابیں بھی مل جائیں گی جرابوں میں ذرا لمبی والی ہوں تو بہتر ہوگا کیونکہ اس طرح ٹانگیں گرم رہتی ہیں۔ غریبوں کے پاس ہماری طرح نرم گرم کمبل نہیں ہوتے جو لحاف وہ سردی سے بچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اس میں زیادہ استعمال سے روئی اکٹھی ہوجاتی ہے جس میں سے لحاف میں روشنی اور ہوا کا گزر باآسانی ہوتا ہے یہ لوگ دھوپ نکلنے تک نہیں سوتے نہ کمبل میں گھس کر بیڈ ٹی پیتے ہیں بلکہ سورج نکلنے سے پہلے ہی کام کاج پر نکل جاتے ہیں اس لیے انہیں سردی بہت ستاتی ہے۔

بچوں کے لیے ٹوپی والے سویٹرز خریدیں کہ انہیں وہ مائیں بھی تو دستیاب نہیں ہوتیں جو بار بار بچے کی اتار کر پھینکی گئی ٹوپی اس کے سر پر دوبارہ سے پہنائیں اور سردیوں سے بچاؤکو ممکن بنا سکیں کام کاج میں الجھی ماؤں کو اپنی معاشی پریشانیوں سے اتنی فرصت نہیں ملتی۔ آپ کچھ تیز رنگوں والی ہائی نیکس شرٹس بھی ضرور خریدیں جو بدلتے موسموں کی شدت سے پہلے اور بعد میں بھی ان غریبوں کے کام آ سکتی ہیں جیسے گرمیوں سے سردیوں کی ابتدا میں یا سردیوں کی شدت ذرا کم ہونے کے وقت۔

آپ نے آگے یہ کرنا ہے کہ چند گھنٹوں کی محنت سے جو کپڑوں کا ایک بنڈل کچھ ہزار میں خرید لیا ہے اسے گھر میں لاکر کپڑے دھونے والی ماسی کو دے کر ساتھ میں ایک داغ تو اچھے ہوتے ہیں والی سرف کا پیکٹ بھی دیں اور یہ سارے کپڑے دھلوا کر مستحقین میں بانٹ دیں اگر آپ یہ کہیں کہ ایک تو کپڑے خریدنے کی تکلیف اور دوسرا دھونے کی مصیبت ہم سے نہیں ہوتی تو یہ آپ کی غلطی ہے۔

ہمارا تعلق جس دین سے ہے اس میں صفائی کو آدھا ایمان کہا گیا ہے اب انگریزوں کے استعمال شدہ کپڑوں کو اگر دھویا بھی گیا ہوگا تو انہی کے طریقے سے اس طرح مختلف قسم کی جلدی بیماریوں وغیرہ کا خطرہ بھی رہتا ہے اور ان کپڑوں میں نماز وغیرہ اور پاکی کے مسائل بھی مشکوک نہیں رہتے۔ آپ ایک بار دھو کر دے دیں بعد میں وہ لوگ جانیں اور ان کی صفائی ستھرائی۔

اچھا، کپڑے سویٹرز اور جرابیں وغیرہ بانٹتے ہوئے سب سے اہم چیز جس پر غور کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ اور صحیح مستحقِ لوگوں تک یہ سب پہنچایا کیسے جائے۔ اس کے لیے ہمیں مشاہدے کی ضرورت ہے گھر میں کام کرنے والے لوگ بھی مستحق ہوتے ہیں لیکن وہ مختلف گھروں میں کام کر کے کئی لوگوں سے مانگ کر بھی ضرورتیں پوری کر لیتے ہیں لیکن کچھ لوگ ہمارے ارد گرد ایسے بھی ہیں جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے لیکن ان کا پہنناوا ہمیں بتا رہا ہوتا ہے کہ وہ خود دار تو ہیں لیکن ضرورت مند بھی ہیں کسی طریقے سے یہ سب ان لوگوں کو دے کر شروعات کریں جن میں بچے اور بوڑھے سر فہرست ہونے چاہیں۔ اور یہ سب اعلانیہ بالکل بھی نہیں کرنا کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ جس نیکی کا کوئی گواہ نہ ہو سوائے اللہ کے وہ نیکی بہت قیمتی اور بڑی ہوتی ہے۔

آپ سب خود بھی صدقہ خیرات کرنے اور ان کی برکات و ثواب کو سمجھنے والے لوگ ہیں لیکن جب آپ غریب کی مدد پیسوں سے کرتے ہیں تو پیسے وہ دیگر ضروریات کو اہم سمجھ کر ان پر لگا دیتے ہیں اور سرد موسم کا مقابلہ کرنے کے لیے چند کپڑے خریدنے کو غیر ضروری یا عیاشی کہہ کر پیسے خرچ کر دیتے ہیں اور بعد میں کسی موذی بیماری جیسے نمونیہ وغیرہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

آپ تجربہ کر کے دیکھیں آپ کے چند گھنٹوں کی محنت اور تھوڑے سے پیسوں کا خرچہ ان شاءاللہ تعالیٰ آپ کے لیے پوری سردی سکون کے احساس کا باعث بنا رہے گا۔

تصور کریں کسی سرد اور دھندلی صبح جب آپ واک پر نکلیں ایک مزدور اپنے اوزار اٹھائے کام پر جاتے ہوئے آپ کا دیا ہوا سویٹر جیکٹ یا مفلر پہنے ہوئے نظر آئے تو آپ کے اندر جو سکون کا احساس پیدا ہوگا وہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا نیکیاں کبھی رائگاں نہیں جاتیں وہ کہیں نہ کہیں آپ کے مشکل رستوں میں آسانیاں بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں آپ نیکی کر کے بھول جائیں گے لیکن ایک جگہ ہے جہاں سب درج ہو رہا ہے اور وہاں کوئی دھاندلی بھی نہیں ہو سکتی، نہ ہی آپ کے حصے کی نیکیوں کا کریڈٹ کوئی دوسرا لے سکتا ہے

اللہ کریم ہم سب کو نیکیاں کرنے اور انہیں بھول جانے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔

نوٹ۔ میرا لنڈا بازار والوں سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ آرٹیکل خالصتاً ہمدردی کی بنیاد پر لکھا۔ ہے نہ ہی لنڈے والے پبلسٹی کے محتاج ہوتے ہیں آپ نے کبھی دیکھا ہے ٹی وی وغیرہ پر کہ کوئی ماڈل لنڈے کا سوئیٹر پہن کر لچکتے بل کھاتے ہوئے کہہ رہی ہو

میرے سگھڑ پن کی یہ مثال ہے۔
فقط لنڈے کا نہ کہو اسے
یہ امپورٹڈ مال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).