جمال خاشقجی کا انسانیت سوز قتل اور محمد بن سلمان کی جابرانہ پالیسی


سعودی حکومت نے بالآخر ممتاز عرب صحافی اور تجزیہ کار جمال خاشقجی کے قتل کا جزوی طور پر اعتراف کرلیا۔ جزوی کا لفظ استعمال اس لیے کیا کہ اس ہائی پروفائل قتل کا جس انداز میں سعودی حکومت اعتراف کرچکی ہے وہ نیم اعتراف کے زمرے میں آتا ہے۔ سعودی حکومت کے مطابق استنبول میں واقع سعودی سفارتخانے میں داخل ہونے کے بعد جمال خاشقجی کی وہاں پر موجود لوگوں سے لڑائی ہوئی تھی جو بالآخر ان کے قتل پر منتج ہوئی۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خاشقجی کے قتل میں ملوث افراد کی تعداد اٹھارہ تھی جو سعودی عرب کی شہریت رکھتے ہیں۔ یہ تصویر کا وہ مشتبہ رخ ہے جسے سعودی حکومت نے دکھائی ہے۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جمال خاشقجی کا قتل کا ایک سوچے سمجھے پلان کا حصہ تھا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ جمال خاشقجی محمد بن سلمان حکومت کے شدید ناقدین میں سے ایک تھے۔

اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ محمد بن سلمان سے ان کی پالیسیوں پر تواتر کے ساتھ نقد کرنے والے مذکورہ صحافی کے مضامین ا ور تجزیے ہضم نہیں ہو پا رہے تھے۔ جب خاشقجی کی تنقید میں شدت آئی تو ان کے ٹویٹر اکاونٹ پر پابندی لگائی گئی جس کی بناء پر وہ احتجاجاً ا مریکہ منتقل ہوکر وہاں کے باقاعدہ شہری بن گئے۔

جلاوطنی کے دوران مشہور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں ان کے پیہم شائع ہونے والے تنقیدی کالمز نے محمد بن سلمان کا پارہ مزید چڑھا دیا اور بالآخر بن سلمان حکومت کی جانب سے ان کے قتل کا انتہائی اقدام اٹھایا گیا۔

جمال خاشقجی کون تھے اور سعودی حکومت پر ہونے والی ان کی تنقید کی نوعیت کیا تھی؟ پہلے سوال کے جواب میں سرے سے کوئی اشکال نہیں ہے کیونکہ جمال خاشقجی صحافت کی دنیا میں ایک جانا پہچانا نام تھا۔

ان کا تعلق اسی سعودی عرب سے تھا جس سعودی عرب سے محمد بن سلمان کا تعلق ہے۔ آج سے چھپن سال پہلے 1958 میں سعودی عرب کے مبارک شہر مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ صحافت کی ڈگر ی امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی سے حاصل کی اور پہلی دفعہ انگریزی زبان میں شائع ہونے والے سعودی گزٹ کے لئے ایک نمائندے کے طور پر کام کا آغاز کیا۔

اپنے صحافتی زندگی کے ابتدائی زمانے میں ان کو سعودی شاہی خاندان کی قربت بھی حاصل رہی جس کی بدولت ان کو کافی شہرت ملی۔ انہوں نے بعد میں 1987 سے 1990 کے درمیانی عرصے میں انہوں نے لندن سے نکلنے والے سعود ی اخبار الشرق الاصوات کے ساتھ بھی کام کیا ا ور بعد میں آٹھ سال تک عرب اخبار الحیات میں بھی انہوں نے مضامین لکھے۔

کہا جاتا ہے کہ خاشقجی نوے کی دہائی میں افغانستان، ا لجیریاء، کویت ا ور مشرق وسطیٰ کے حالات کی کوریج بھی کرتے رہے اور ا سامہ بن لادن سے انٹرویو ز بھی کیے۔ 1999 میں وہ عرب نیوز کے ڈپٹی ایڈیٹر بنے اور بعد میں الوطن اخبار میں بطور ایڈیٹر انچیف بھی کام کیا۔

خاشقجی کو 2007 میں دوبارہ الوطن اخبار میں کام کا موقع دیا گیا لیکن تین سال بعد سرحدات کے ایشو کو چھیڑنے کی وجہ سے ان کو ہٹایا گیا۔ خاشقجی نے ترکی بن الفیصل کے میڈیا ایڈوائزر بھی کام کیا جو کہ ایک زمانے میں سعودی کی انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ اور ا مریکہ میں سعودی کے سفیر رہے تھے۔

البتہ دوسرے سوال کا تعلق خاشقجی کے ان کالمز اور تجزیوں سے ہے جس میں سعودی حکومت کی غلط پالیسیوں کے حوالے سے صحت کا کافی مواد شامل ہوتاتھا۔ خاص کر انہوں نے شہزاد ہ محمد بن سلمان کے اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے ان کی حکومتی پالیسیوں کی خو ب خبر لینی شروع کی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کے حوالے سے محمد بن سلمان کی پالیسیاں قابل تنقید اور قابل بحث تھیں۔ ان کی آمرانہ روش اور ان کی انانیت کے اوپر لکھنا ہر کسی کا حق تھا، سو جمال خاشقجی نے بھی وہی کیا جو ایک سچے صحافی ہونے کے ناطے ان کا حق بنتا تھا۔

واشنگٹن پوسٹ میں گیارہ ستمبر کو شائع ہونے والے اپنے آخری کالم میں خاشقجی نے عرب دنیا کے ذرائع ابلاغ اور وہاں پر اظہار رائے کے حوالے سے لکھا تھا۔ اس کالم میں وہ رقم طراز ہیں کہ ”عرب ملکوں میں آزادی اظہار نہیں ہے جس کی وجہ سے مذکورہ ملکوں کے لوگ یا تو لاعلمی کی دنیا میں ٹامک ٹوئیاں لے رہے ہیں یا پھر سرکاری میڈیا کی طرف سے غلط معلومات فراہم کرنے پر گزارہ کر رہے ہیں۔ عرب بہار کے حوالے سے مذکورہ کالم میں انہو ں نے لکھا ہے کہ عرب بہار (Arab spring) کے آنے سے عرب معاشر ے کی آزادی کی کئی امیدیں پیدا ہونے لگی تھے لیکن یہ امیدیں بہت جلد دم توڑ گئے اور اندھیرا مزید گہرا ہوگیا۔

عرب میڈیا کے حوالے سے ان کا خیال تھا کہ عرب دنیا میں میڈیا کے خلاف کریک ڈاون سے بین الاقوامی سطح پر کوئی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا جس کی وجہ سے عرب ملکوں میں میڈیا کو لگام ڈالنے کی ریاستی کوششیں مزید تیز ہوئیں۔ خاشقجی نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ عرب دنیا کو ریڈیو فری پورپ کی طرز کے کسی ادارے کی ضرورت ہے۔

اسی کالم میں انہوں نے قطری اور تیونسی ذرائع ابلاغ کے اوپر بھی انگلی اٹھائی ہے اور لکھا ہے کہ اس دو ملکوں کی میڈیا میں بین لاقوامی امور تو زیر بحث لائے جاتے ہیں تاہم عرب دنیا کے حوالے سے اس میں بحث وتمحیص نہیں ہورہی ہے جو کہ افسوس ناک ہے“۔

جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے تر ک میڈیا نے یہ خبر بھی دی ہے کہ ”سعودی کونسل خانے کے اندر تفتیش کے دوران پہلے خاشقجی کی انگلی کاٹی گئی اور بعد میں انتہائی بے رحم طریقے سے انہیں قتل کرکے ان کے لا ش کے ٹکڑے بھی کردیئے تھے“۔

اگرچہ جمال خاشقجی اس دنیا میں اب نہیں رہے لیکن ان کا بہیمانہ قتل سعودی حکومت اور بن سلمان کے دامن پر ایک انمٹ داغ کی طرح ہمیشہ رہے گا۔ اس قتل سے نہ صرف سعودی عرب جیسے ملک کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا بلکہ سعودی حکمرانوں کے اندر ظالموں کے روپ میں موجو د وہ بے رحم انسان بھی دنیا ک و نظر آنے لگے جو پہلے کسی حد تک پوشیدہ تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).