بس اک کفن کی خاطر اتنا سفر کرنا پڑا


بے لباس آئے تھے اس جہاں میں
بس اک کفن کی خاطر اتنا سفر کرنا پڑا

اگر غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ زندگی کی حقیقت کتنی مختصر ہے۔ روزانہ ہزاروں آتے اور چلے جاتے ہیں۔ ہر ایک کی زندگی بہت سے تجربات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ بے لباسی سے لباس تک کا یہ سفر اپنے اندر بہت سے اتار چڑھاؤ سموئے ہوئے ہے جو کبھی دشوار لگتا ہے تو کبھی آسان۔

زندگی کبھی خوشیوں کا گہوارہ لگتی ہے تو کبھی غموں کا سمندر۔ ہر بدلتا لمحہ ہمارے لیے زندگی کی حقیقت کو عیاں کرتا رہتا ہے۔ اس دنیا میں آیا ہوا ہر ایک فرد ایک مسافر ہے جو زندگی کا سفر طے کر رہا ہے اور جب منزل آ جائے تو سفر ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں یہ سفر انسان کے مقدر میں لکھا گیا ہے؟ خالق کائنات کا مقصد کیا تھا؟ یہ وہ سوال جو مجھے جھنجھوڑ گیا اور میرے ذہن میں بہت سے سوالات جنم لینے لگے کہ کیوں؟ آخر کیوں ہمیں اس دنیا میں بھیجا گیا ہے؟ اس دنیا کی افراتفری اور روشنیوں میں انسان اتنا گم ہے کہ اس جہاں میں آنے کا مقصد ہی بھول گیا ہے۔ اگر ہم انسان کے آغاز کی جانب اپنی سوچ کے گھوڑے دوڑائیں تو یاد آتا ہے کہ خالق کائنات نے تو ہمیں اشرف المخلوقات بنایا تھا۔ اللہ تعالی نے فرشتوں سے آدم کو سجدہ کروایا اور نہ کرنے والا ابلیس کہلا یا۔ سوچنے کی بات ہے کہ عبادت کے لیے تو فر شتے بھی موجود تھے پھر خدا کو ہمارے سجدے کیوں چاہیے تھے؟ کیا مصلحت تھی خدا کی آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے میں؟ خانہ کعبہ کا طواف کرتے لاکھوں حاجی اور مسجدوں میں کھڑے ہزاروں نمازی کیا خدا کی اس مصلحت کو سمجھ پائے ہیں؟

انسان کی تخلیق کا مقصد عبادت نہیں عبدیت اور خالق کی اطاعت تھی۔ بندگی سجدے میں ہے اور سجدہ اصل معنوں میں صرف سر جھکانا نہیں بلکہ دل جھکانا بھی ہے۔ لیکن انسان کے دل تو کفر سے بھرے ہیں۔ عالی شان مکانوں میں رہنے والے چھوٹے چھوٹے انسان یہ بھول گئے ہیں کہ اس جہاں کے سب سے عظیم انسان حضرت محمد صل اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مٹی کے گھر میں رہتے اور چٹائی پر سوتے تھے۔

اگر بڑے بڑے محل اللہ کے بندوں کے ہوتے تو فرعون نشان عبرت نہ ہو تا۔ انسان اس حقیقت سے آشنا تو ہے مگر اتنا مصروف ہے کہ اس پر غور کرنے کے لئے اس کے پاس وقت نہیں ہے۔ اللہ نے انسان کو بے شمار نعمتیں عطا کیں کہ اگر گننے بیٹھے تو گن نہ سکے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے ایک دوسرے کا دکھ درد سمجھیں اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کریں۔ مگر انسان کو سوائے اللہ کے ہر چیز کی فکر ہے۔

اللہ نے شیطان کو نکالا سجدہ نہ کرنے پر اور انسان کو بخشا ہے بڑی سے بڑی غلطی کرنے پر۔ وہ تو ہمارے دکھاوے کے سجدے بھی قبول کرتا ہے۔ دن میں پانچ بار فلاح کی طرف بلا تا ہے اور ہم اس کی آواز پر لبیک کہہ کر مسجدوں کو دوڑنے کے بجائے دُنیاوی اور بے مقصد کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

وہ خدا جو ہمیں ستر ماؤں سے زیادہ چاہتا ہے، ہماری دعاؤں کو سنتا اور قبول کرتا ہے۔ ہمیں تکلیف میں راحت بخشتا ہے ہماری پریشانیوں اور آزمائشوں کو دور کرتا ہے اور مشکلات میں بھی ہمارے لئے آسانیاں رکھتا ہے۔ ہمارا خدا تو اتنا رحیم ہے کہ عطا کر کے جتلاتا نہیں بلکہ مزید عطا کرتا ہے۔

قرآن کھولو تو لگتا ہے کہ اس کے الفاظوں میں خدا بول رہا ہے اس کے فرمان رہتی دنیا تک کے لئے ہیں۔ قرآن کا ایک ایک لفظ خالق کائنات کی بڑائی بیان کرتا ہے اور ہمیں زندگی صحیح طور پر گزارنے کا درس دیتا ہے۔ اتنا کچھ عطا کرنے کے بعد بھی کہتا ہے کہ میرا شکر ادا کرو میں اور دوں گا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:
”پس تم اپنے رب کی کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ“

ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہم اس دنیا میں حاصل کر رہے ہیں بس یہی اس دنیا میں آنے کا مقصد ہے۔ ہمارےپاس اگر بنگلا، گاڑی اور بنک بیلنس ہے تو ہمارا مقصد حیات پورا ہوا، جب کہ ایسا نہیں ہے۔ اصل مقصد تو خدا تعالی کے سامنے سجدہ ریز ہونا، اٹھتے بیٹھتے اس کا شکر ادا کرنا اور اس کے بندوں کا خیال رکھنا ہے۔ اللہ ہمیں اپنی زندگی کے اصل مقاصد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).