مہارانیوں اور بیگمات کی بیچارگیاں


یہ مسئلہ بہت دلچسپ، بہت دقیق اور مردوں کے لئے بہت ہی غور طلب ہے، کہ عورت کیا چاہتی ہے؟ یعنی شادی کے بعد عورت کیونکر اپنے شوہر کے ساتھ خوشگوار، مطمئن اور پرکیف زندگی بسر کر سکتی ہے۔ کیونکہ اگر تحقیقات کی جائے، تو نوے فیصدی عورتیں شادی کے بعد ایک غلامانہ زندگی بسر کرتے ہوئے ذہنی اور قلبی عذاب میں مبتلا ہیں۔ گو یہ بے زبان ہونے کے باعث کسی سے بھی اپنی پر عذاب زندگی کا اظہار نہیں کر سکتیں۔ اور راقم الحروف کی خواہش ہے، کہ وہ اس مسئلہ پر تفصیل کے ساتھ بحث کرتے ہوئے ایک کتاب شائع کرے۔ چنانچہ اس مضمون میں مہارانیوں اور بیگمات کی درد ناک اور پر عذاب زندگی کے متعلق صرف چند واقعات بیان کیے جاتے ہیں، تاکہ دنیا کو معلوم ہو سکے، کہ ان مہارنیوں اور بیگمات کی اصل کیفیت کیا ہے، جن کو دوسری عورتیں قابل رشک سمجھتی ہیں:۔

دفتر ”ریاست“ میں ایک صاحب ماسٹر عبدالکریم کئی برس تک سرکولیشن ڈیپارٹمنٹ کے انچارج رہے۔ یہ ماسٹر عبد الکریم بہت ہی شریف، دیانتدار، نیک اور وفا شعار تھے، اور وہ دفتر ”ریاست“ یا راقم الحروف کے خلاف کوئی بات نہ سن سکتے تھے۔ ان کے کریکٹر کی بلندی کا صرف ایک ہی واقعہ سے انداز لگایا جا سکتا ہے، کہ مقدمہ نواب بھوپال بنام ایڈیٹر ”ریاست“ کے سلسلہ میں مقدمہ کے دوران نواب بھوپال کی طرف سے ان کو پانچ ہزار روپیہ رشوت پیش کی گئی، تاکہ یہ ایک جعلی تحریر کے متعلق اسے دیوان سنگھ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تصدیق کر دیں، اور عدالت میں بیان دے دیں۔

مگر باوجود اس بات کے، کہ صرف چالیس روپیہ ماہوار تنخواہ پاتے تھے، ( کیونکہ اس زمانہ میں اردو اخبارات کے دفاتر میں تنخواہوں کا معیار ایسا ہی تھا۔ اور جو کلرک آج کسی اخبار میں ایک سو روپیہ ماہوار تنخواہ پا رہا ہے، اس کی تنخواہ اس زمانہ میں پچّیس تیس روپیہ ماہوار سے زیادہ نہ تھی) آپ نے پانچ ہزار روپیہ کو ٹھکرا دیا۔ اس پیشکش کو قبول نہ کرنے کے بعد راقم الحروف کو بتا دیا، کہ ان کو کس ذریعہ سے اور کن لوگوں نے رشوت پیش کی۔ کیونکہ اس سے پہلے دفتر ”ریاست“ کے کئی ملازم جھوٹی شہادت دینے کے لئے بھوپال سے ہزار ہا روپیہ وصول کر چکے تھے۔

ماسٹر عبد الکریم نے جب بھوپال کا پانچ ہزار روپیہ رشوت قبول کرنے سے انکار کر دیا، تو دہلی کے واقف کار حلقوں اور اخبارات میں آپ کے متعلق بہت ہی عزت و احترام کے جذبات پیدا ہو گئے۔ کیونکہ پانچ ہزار روپیہ کی رقم معمولی نہ تھی۔ آپ کی یہ شہرت دہلی کے ایک رئیس خاندان تک پہنچی، جس کے عزیزوں اور رشتہ داروں میں کاٹھیاواڑ کی ایک نوجوان بیگم بھی تھیں۔

اس رئیس خاندان کی ایک خاتون نے کاٹھیاواڑ کی اس بیگم سے ماسٹر عبد لکریم کی سفارش کرتے ہوئے آپ کی وفا شعاری کی سپرٹ کی تعریف کی، اور چاہا، کہ یہ بیگم صاحبہ ماسٹر صاحب کو بطور اپنے ایک معتمد کے ملازم رکھیں۔ چنانچہ یہ بیگم صاحبہ جب دہلی آئیں، تو ماسٹر عبد الکریم کو طلب کیا گیا، اور بیگم صاحبہ نے ماسٹر صاحب کو ایک سو روپیہ ماہوار اور کھانے پینے وغیرہ کے تمام اخراجات پر ملازم رہنے کے لئے کہا۔

ماسٹر عبد الکریم اس پیشکش کے بعد دفتر ”ریاست“ میں تشریف لائے، اور تمام حالات بیان کیے۔ اور چونکہ ماسٹر عبد الکریم کا کاٹھیاواڑ کی ریاست میں ملازم ہونا ایک سو روپیہ اور دوسرے اخراجات پر ان کے لئے مفید تھا۔ اس لئے ان کی خوشی کے ساتھ اجازت دے دی گئی، کہ وہ بیگم صاحبہ کے ساتھ کاٹھیاواڑ چلے جائیں۔ اور ماسٹر صاحب دہلی سے بیگم صاحبہ کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ ماسٹر صاحب کو کاٹھیاواڑ کی ان بیگم صاحبہ کے پاس ملازم ہوئے دو ماہ ہوئے تھے، کہ ایک روز ماسٹر صاحب دفتر ”ریاست“ میں تشریف لائے۔

یہ لباس کے لحاظ سے ایک ریاستی اہلکار معلوم ہوتے تھے۔ سر پر راجپو توں جیسی رنگین اور نوکدار پگری، اعلیٰ درجہ کی گرم سرج کی اچکن، اور اس پر سنہری رنگ کے بٹن، سفید تنگ پاجامہ اور ریشمی جرابوں کے ساتھ پالش کیا ہوا سیاہ بوٹ۔ ماسٹر صاحب کے ریئسانہ اہلکارانہ ٹھاٹ دیکھ کر طبیعت بہت خوش ہوئی، اور دفتر کا تمام سٹاف آپ سے گرمجوشی کے ساتھ ملا۔ ماسٹر صاحب دوسرے تمام لوگوں سے ملنے کے بعد جب راقم الحروف کے کمرے میں آگر بیٹھے، تو ان کے اور راقم الحروف کے درمیان یہ باتیں ہوئیں:۔

میں:۔ سنایئے ماسٹر صاحب آپ کی صحت تو اچھی ہے؟
ماسٹرصاحب :۔ آپ کی مہربانی سے بالکل اچھا ہوں۔

میں:۔ کیا کاٹھیاواڑ میں آپ کا دل تو لگ گیا؟
ماسٹر صاحب :۔ جی ہاں! دل تو لگانا ہی پڑتا ہے۔

میں :۔ آپ کتنے روز کی رخصت پر آئے ہیں؟
ماسٹر صاحب :۔ میں رخصت تو پندرہ روز کی لے کر آیا ہوں، مگر میں اب واپس نہ جاؤں گا۔

میں:۔ کیوں کیا بات ہے، آپ واپس نہ جائیں گے؟ ایک سو روپیہ ماہوار تنخواہ پاتے ہیں، باقی کے تمام اخراجات ادا کرتی ہے، پھر آپ کیوں نہ جائیں گے؟
ماسٹر صاحب :۔ کچھ ایسے ہی حالات ہیں۔ وہاں کے ایک سو روپیہ ماہوار کے مقابلہ پر آپ کے دفتر کے چالیس روپیہ ماہوار اچھے ہیں۔

میں:۔ آخر بتائیے تو سہی، کہ وہاں کیوں کیوں واپس نہ جائیں گے؟
ماسٹر صاحب :۔ بات یہ ہے، کہ وہاں نواب صاحب تو خوبصورت لڑکوں میں گھرے رہتے ہیں۔ دن رات شراب پی جاتی ہے۔ دس دس روز تک نواب صاحب زنانہ محلات میں نہیں آتے۔ سوائے شکار کے نواب صاحب کو دوسرا کوئی کام نہیں، اور اس کے علاوہ اور بھی کچھ حالات ہیں۔ میں تو کسی قیمت پر بھی وہاں نہیں جاؤں گا۔

میں :۔ اور کیا حالات ہیں؟
ماسٹر صاحب :۔ مجھے بتاتے ہوئے کچھ شرم سی محسوس ہوتی ہے۔ کیونکہ آپ کا ادب کرتا ہوں، اور ایسی کبھی کوئی بات آپ کے سامنے نہیں کہی۔

میں:۔ پھر بھی بتایئے تو سہی، آپ کے وہاں جانے میں اور کیا رکاوٹ ہے؟
ماسٹر صاحب :۔ بات یہ ہے، میں وہاں گیا، تو ایک ماہ کے قریب تو مجھے وہاں کوئی کام نہ تھا۔ صرف صبح و شام بیگم صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کرنا، اور اپنے کوارٹر میں پڑے رہنا۔ اس عرصہ میں نواب صاحب کا صرف ایک روز نیاز حاصل ہوا، کیونکہ میرا کام بیگم صاحبہ کی حدمت ہی تھا۔ ایک ماہ کے بعد ایک روز میں بیگم صاحبہ کی خدمت میں حاضر تھا، اور دستور کے مطابق ہاتھ باندھے کھڑا تھا، تو بیگم صاحبہ نے پان پیش کرنے والی ملازمہ سے کہا، کہ وہ نیچے کی منزل میں چلی جائے۔ اور جب وہ چلی گئی، تو بیگم صاحبہ آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئیں، اور آپ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، کہ ماسٹر صاحب یہ میرے بال کیسے ہیں، خوبصورت معلوم ہوتے ہیں یا نہیں؟

میں نگاہیں نیچی کر کے کھڑا تھا۔ کیونکہ ریاستوں میں مودب ہو کر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ میں نے نیچے نگاہ کیے ہی جواب دیا، حضور بہت اچھے ہیں۔ اس سے اگلے روز جب بیگم صاحبہ نئی ساڑھی پہن کر آئینہ کے سامنے کھڑی ہوئیں، تو آپ نے دریافت کیا، کہ یہ ساڑھی خوبصورت ہے؟ میں نے پھر نیچے نگاہ کیے ہی جواب دیا، کہ حضور بہت اچھی ہے۔ اس طرح دریافت کرنے کا سلسلہ کئی روز جاری رہا، کیونکہ بیگم صاحبہ دن میں کئی کئی بار لباس اور زیورات تبدیل کرتیں، اور ہر بار ان کے خوبصورت ہونے کے متعلق دریافت کرتیں۔ میں سمجھ گیا، کہ ان کی نیت کچھ اچھی نہیں۔ ادھر مجھے خوف، کہ اگر نواب صاحب کو علم ہو گیا، کہ بیگم صاحبہ مجھ سے اپنے حسن کی داد چاہتی ہیں، تو نہ معلوم نواب صاحب میرے ساتھ کیا سلوک کریں۔ اس لئے پندرہ روز کی رخصت لے کر آگیا ہوں، اور اب میں واپس جانا نہیں چاہتا۔

میں :۔ میری رائے میں تو آپ کو ملازمت چھوڑنی نہ چاہیے۔
ماسٹر صاحب :۔ ریاستوں کی حالت تو آپ جانتے ہیں۔ اگر نواب صاحب نے غلط فہمی کے باعث ہی شراب اور غصہ کی حالت میں مجھے گولی مار دی، میرے بیوی بچے کیا کریں گے؟ میں تو کسی قیمت پر بھی اب وہاں جانے کے لئے تیار نہیں، اور نہ جاؤں گا۔ آپ مجھے اپنی پہلی جگہ پر ہی ملازمت دے دیجیے۔

میں نے ماسٹر صاحب کو بہت سمجھا یا، کہ وہاں کی ملازمت ترک نہ کریں۔ مگر وہ اس قدر سہے ہوئے تھے، کہ وہ واپس ریاست میں نہ گئے۔ حالانکہ بیگم صاحبہ نے اپنی دہلی کے رشتہ داروں کی معرفت ان کو واپس آنے کئی پیغام بھیجے، اور وہ پھر اخبار ”ریاست“ میں ملازم ہو گئے۔

جو جوان لڑکیاں اس وہم میں مبتلا ہیں، کہ ا ن کی شادی کسی نواب، رئیس، مہاراجہ، زمیندار یا جاگیردار سے ہو، اور وہ شادی کے بعد اپنی زندگی بہت پر لطف اور خوشکوار صورت میں بسر کریں گی، غلطی پر ہیں۔ بڑے گھروں کی خواتین اطمینان کی زندگی سے قطعی محروم ہیں۔ کیونکہ ان روئسا ء میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو گا، جس کی ایک سے زیادہ بیویاں یا داشتہ عورتیں نہ ہوں۔ اور ایک عورت کے لئے یہ بہت بڑا ذہنی عذاب ہے، کہ وہ اپنے شوہر کی محبت میں کسی دوسری عورت کو شریک کرے۔ چنانچہ راقم الحروف کی بعض مہارانیوں اور بیگمات سے جو بات چیت ہوئی، ان میں سے چند نے مغموم صورت میں یہ الفاظ کہے:۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon