قصور کی زینب اور ہتھکڑیوں میں استاد


قصور کی زینب کے قاتل عمران علی کو پھانسی دے دی گئی۔ انصاف کے تقاضے پورے کر دیے گئے۔ زینب کے بابا نے میڈیا اور چیف جسٹس پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، مجرم کی سزا پر اطمینان کا اظہار کیا۔

زینب کے بعد بھی ہمارے درجنوں بچے بھنبھوڑ کے قتل کر دیے گئے۔ مجھے اُن بچوں کے نام یاد نہیں، آپ کو یاد ہیں؟ اُن بے نام بچوں کے والدین کبھی ٹی وی پہ نظر نہیں آئے، انہوں نے میڈیا اور عدالتوں کا شکریہ بھی ادا نہیں کیا، یعنی اُنہیں اِنصاف نہیں مل سکا۔ اگر میڈیا زینب جیسے دوسرے بچوں پہ ظلم کی کہانیاں بھی باربار سناتا، معاشرہ غصے میں آ جاتا، نظامِ انصاف حرکت میں آ جاتا، تو غالباً اُن بے نام بچوں کو بھی انصاف مل جاتا۔ کیا انصاف کا نظام اس طرح کام کرتا ہے؟ کیا کسی مہذب معاشرے میں۔ لا حول ولا قوۃ، یہ مہذب معاشرے کا ذکر کہاں سے آ گیا۔ خیر چھوڑیے اس بحث کو، بس ایک بات یاد رکھیے، قصور کی زینب جیسے بہیمانہ قتل ہوتے رہیں گے، اسی تواتر سے ہوتے رہیں گے، اُن میں سے کسی کسی واقعہ کو میڈیا’بوجوہ‘ اُچھال دے گا، باقی مقتولین کے نام بھی ہمیں یاد نہیں رہیں گے۔ اور یہ بھی یاد رکھیے گا کہ وہ میری ’زینب‘ بھی ہو سکتی ہے اور آپ کی بھی!

جو ریاست اور معاشرہ طاقت ور کا طرف دار ہو، در اصل وہ زینب کا قاتل ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ اس ملک میں ہر کمزور شخص اور ہر طبقہ غیر محفوظ ہے، اقلیتیں، عورتیں، بچے، بوڑھے۔ بُوڑھوں کے ذکر سے زینب جیسا ایک اور قصہ یاد آ گیا، وہ بھی سُن لیجیے۔

پچھلے ہفتے چند بوڑھے اساتذہ کو ہتھکڑیوں میں دیکھ کر معاشرے کا ضمیر جاگ اُٹھا، سو ہم نے سر میں خاک ڈالی، سینہ کوبی کی، ایک شامِ غریباں برپا کر دی۔ جذبات میں لتھڑے ہوئے کالم لکھے گئے، ٹی وی پروگرامز میں واقعہ کے ذمہ داروں پہ تبرا بھیجا گیا، پھر کچھ دن گزرے اور میڈیا کا افق نئی پھلجھڑیوں سے رنگین ہو گیا، زندگی ڈھرے پر چل پڑی، اللہ اللہ خیر سلا۔

سوال یہ ہے کہ ہم نے اتنا واویلا کیوں کیا؟ ہمیں حیرت کس بات پہ ہوئی؟ کیا اس معاشرے میں استاد کی کوئی عزت ہے جس کے مجروح ہونے کا اس قدر ماتم کیا گیا؟ جو تنخواہ استاد کو ہم دیتے ہیں، اُس سے تو نہیں لگتا، نہ ہم استادوں کو ریٹائرمنٹ پہ کوئی پلاٹ دیتے ہیں، نہ کبھی کہیں کوئی ٹیچرز ہاؤسنگ اتھارٹی دیکھی، نہ انہیںسڑکوں کے ٹول ٹیکس پہ کوئی چھوٹ، نہ ریل، جہاز اور فلم کی ٹکٹ سستی۔ کیا ریاست نے یا کسی بھی حکومت نے کبھی ایسا کوئی قدم اُٹھایا ہے جس سے ہمیں شک گزرے کہ ہم اساتذہ کی عزت کرتے ہیں؟ کبھی آپ نے دیکھا کہ کسی استاد نے کہیں اپنے اسکول، کالج کا شناختی کارڈ پیش کیا اور وہ ترجیحی سلوک کا حق دار ٹھہرایا گیا؟ تو پھر کیسے طے کیا جائے کہ یہ معاشرہ اُستاد کی عزت کرتا ہے؟ کیا میں اور آپ اپنے بچوں کو استاد بنانا چاہتے ہیں؟ ملک کے مختلف امتحانی بورڈز میں جو بچے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں میڈیا اُن کے انٹرویو کرتا ہے، ہم نے تو کبھی نہیں سُنا کہ اُن میں سے کوئی بچہ اُستاد بننا چاہتا ہو؟ سنجیدگی سے بتائیے، کیا آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بطور معاشرہ استاد کی عزت کرتے ہیں؟

’آج ملک بھر میں یومِ اساتذہ جوش و خروش سے منایا گیا‘ یہ فقرہ ہم نے تو کبھی نہیں سُنا۔ کبھی کوئی ملی نغمہ ایسا نہیں سُنا جس میں اُستاد کی عظمت کا بیان ہو۔ گاڑیوں پر ’پریس‘ اور ’ایڈووکیٹ‘ تو بارہا لکھا دیکھا ہے، ’اُستاد‘ لکھا کبھی نہیں دیکھا۔ کسی پولیس ناکے، کسی پولیس تھانے میں ہم نے آج تک کسی شہری کو یہ کہتے نہیں سُنا کہ ’میں اُستاد ہوں‘۔ (اگر ہوں بھی تو غالباً چھپاتے ہوں گے) اس ماحول میں اگر کہیں چند بُوڑھے، رعشہ زدہ، چھڑیوں کے سہارے چلتے اساتذہ کو ہتھکڑیوں سے آراستہ کر دیا گیا تو اتنے ہنگامے کی کیا ضرورت ہے؟ غالباً اس سے معاشرہ اپنی کوئی نفسیاتی گتھی سلجھانا چاہتا ہے۔ ورنہ استاد کی عزت سے ہمیں کیا سروکار۔ یہ کہنے میں کیا شرمانا کہ پاکستان میں بطور طبقہ اُستاد دوسرے دوسرے درجہ کے شہری ہیں، ایک راندئہ درگاہ مخلوق جس کی ہتک پہ کوئی Contempt of Teacher کا قانون حرکت میں نہیں آتا۔

سچ تو یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’عزت‘ کا تعلق طاقت سے جُڑا ہوا ہے، ریاست بھی طاقت ور کی تکریم کرتی ہے، معاشرہ بھی زورآور کو مدح کا مستحق گردانتا ہے۔ زنجیروں میں جکڑے اُستاد دیکھ کر ہم ذرا جذباتی ہو گئے، جیسے کسی فلم کے کردار پہ ظلم ہوتا دیکھ کر آنکھ بھر آتی ہے، اور بس۔ کچھ عرصے بعد پھر ایسی کوئی تصویرنظر آئے گی تو پھر دو چار دن رو پیٹ لیں گے، چل سو چل۔ اس سے زیادہ یہ معاشرہ ان اساتذہ کے لئے کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں، حتیٰ کہ علامتی طور پہ بھی نہیں۔ اُستاد کی عزت تو ہم نے خیر کیا کرنی، ہم اس کی اداکاری کرنے سے بھی معذور ہیں۔ اِن بُڈھے، معذور اُستادوں سے تو قصور کی زینب اچھی رہی جس کے قاتل عمران علی کو پھانسی دے دی گئی۔

ایک بات یاد رکھیے، اس ملک میں بُوڑھے اساتذہ کی اہانت کے واقعات ہوتے رہیں گے، اُن میں سے کسی کسی واقعہ کو میڈیا اُچھال دے گا، باقیوں کے نام بھی ہمیں یاد نہیں رہیں گے۔ جو ریاست اور معاشرہ طاقت ور کا طرف دار ہو، وہاں ایسے ’چھوٹے موٹے‘ واقعات ہو ہی جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).