خاشقجی کی موت پر نیا سعودی موقف آ گیا، کیسے مارا، لاش ٹکڑے ٹکڑے کی گئی یا نہیں


ایک سینئیر سعودی آفیشل نے جمال خاشقجی کی موت پر نیا موقف دے دیا ہے۔ نئے موقف کے مطابق خاشقجی کا سامنا کرنے کے لیے بھیجی گئی 15 رکنی ٹیم نے انہیں دھمکی دی تھی کہ انہیں ڈرگز دے کر اغوا کر لیا جائے گا۔ خاشقجی نے مزاحمت کی تو ٹیم کے ایک رکن نے ان کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا۔ اس کے بعد ٹیم کا ایک ممبر خاشقجی کے کپڑے پہن کر باہر نکلا تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ خاشقجی قونصل خانے سے باہر چلا گیا ہے۔

دو ہفتے تک جمال خاشقجی کی موت سے لاعلمی ظاہر کرنے کے بعد ہفتے کے دن سعودی عرب نے یہ مان لیا تھا کہ خاشقجی کی موت قونصل خانے میں ایک دھینگا مشتی کے نتیجے میں ہوئی ہے۔ ایک گھنٹے بعد ایک دوسرے سعودی افسر نے موت کی وجہ گلا گھونٹنا بتائی تھی۔

ترک حکام کو شبہ ہے کہ خاشقجی کی لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا تھا۔ اس معاملے پر وہ آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کا بھی ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ 15 رکنی ٹیم کے ساتھ ایک پوسٹ مارٹم کا ماہر ڈاکٹر بھی موجود تھا جو ہڈیاں کاٹنے والی آری لایا تھا۔

نئے سعودی موقف میں اس سے انکار کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ خاشقجی کی لاش کو ایک قالین میں لپیٹ کر ایک مقامی سہولت کار کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ جب سعودی آفیشل سے یہ پوچھا گیا کہ الزامات کے مطابق خاشقجی کا تشدد کرنے کے بعد سر کاٹ دیا گیا تھا تو سعودی آفیشل نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔

سعودی آفیشل نے ایسی دستاویزات دکھائیں جو بظاہر سعودی انٹیلی جنس سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے مطابق سعودی منحرفین کو سعودی عرب واپس لانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا جن میں خاص طور پر خاشقجی کا نام نمایاں تھا۔ اس نے پندرہ رکنی ٹیم کی پشت پانہی کرنے والوں کے بیانات بھی پیش کیے اور ابتدائی تحقیقات بھی۔ آفیشل نے ان تحقیقات اور تفتیش کا کوئی ثبوت نہیں دکھایا۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے یہ پوچھنے پر کہ خاشقجی کی موت کے متعلق سعودی موقف بار بار کیوں تبدیل ہو رہا ہے، آفیشل نے کہا کہ ”حکومت کا ابتدائی بیان اسے فراہم کی گئیں جھوٹی اطلاعات پر مبنی تھا۔ جب یہ واضح ہو گیا کہ مشن کی ابتدائی رپورٹس جھوٹی تھیں تو حکومت نے ایک اندرونی تفتیش شروع کی اور مزید پبلک کمنٹس کرنے سے اجتناب کیا۔ “

سعودی آفیشل کے مطابق ”سعودی حکومت خاشقجی کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہتی تھی کہ وہ واشنگٹن سے سعودی عرب واپس آ جائے۔ یہ سعودی منحرفین کو اس خوف سے واپس لانے کی مہم کا حصہ تھا کہ کہیں انہیں ملک دشمن عناصر اپنا ایجنٹ نہ بنا لیں۔ اس مقصد کے لیے ڈپٹی ہیڈ آف جنرل انٹیلی جنس پریزیڈینسی، جنرل احمد العسیری نے پندرہ رکنی ٹیم بنا کر استنبول بھیجی تاکہ وہ خاشقجی سے قونصل خانے پر ملے اور اسے واپس سعودی عرب آنے پر قائل کرے۔ “

”منحرفین کی واپسی کے لیے ان سے پرامن مذاکرات کرنے کا ایک دائمی حکم دیا گیا ہے۔ عسیری وہ شخص ہے جس نے ٹیم بنائی اور سینئیر شاہی مشیر سعودل القحطانی کے ایک اہلکار کو اس ٹیم میں شامل کرنے کا کہا جو جمال خاشقجی کو اس وقت سے جانتا تھا جب دونوں لندن کے سفارت خانے میں اکٹھے کام کرتے تھے۔ “

”منصوبہ یہ تھا کہ ٹیم خاشقجی کو استنبول کے باہر ایک سیف ہاؤس میں کچھ مدت کے لیے رکھے گی لیکن اگر وہ سعودی عرب واپسی کو تیار نہ ہوا تو اسے چھوڑ دے گی۔ “

حکومتی بیان کے مطابق صورت حال اس وقت قابو سے باہر ہو گئی جب ٹیم نے اپنے احکامات سے تجاوز کیا اور بہت جلد تشدد شروع کر دیا۔ خاشقجی کو قونصل جنرل کے دفتر میں لے جایا گیا جہاں ماہر مطرب نے اس سے سعودی عرب واپسی کے لیے بات چیت کی۔

خاشقجی نے انکار کیا اور کہا کہ باہر کوئی اس کا منتظر ہے اور اگر وہ ایک گھنٹے کے اندر باہر نہ نکلا تو وہ شخصیت ترک حکام سے رابطہ کرے گی۔

سعودی آفیشل کے مطابق قونصل جنرل کے دفتر میں خاشقجی نے مطرب کو بتایا کہ وہ ڈپلومیٹک قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ”تم میرے ساتھ کیا کرو گے؟ کیا مجھے اغوا کرنے کا ارادہ ہے؟ “ خاشقجی نے کہا۔

مطرب نے جواب دیا ”ہاں، ہم تمہیں نشہ آور ادویات دے کر اغوا کر لیں گے“۔ سعودی آفیشل نے بتایا۔ ”انہوں نے اسے چیخنے چلانے سے روکنے کی کوشش کی مگر وہ مر گیا۔ اسے مارنے کی نیت نہیں تھی“۔

آفیشل سے پوچھا گیا کہ کیا ٹیم کے کسی رکن نے خاشقجی کا گلا گھونٹا تھا؟ آفیشل نے جواب دیا ”اگر آپ جمال کی عمر کے کسی شخص کو اس پوزیشن میں لائیں تو اس کے مرنے کا امکان ہوتا ہے“۔

اپنا جرم چھپانے کے لیے ٹیم نے خاشقجی کی لاش کو ایک قالین میں لپیٹا، اسے قونصل خانے کی ایک گاڑی میں ڈالا اور ایک مقامی سہولت کار کے حوالے کر دیا کہ اسے ٹھکانے لگا دے۔ آفیشل نے بتایا۔ فارنزک ماہر صالح طبیقی نے اس جرم کے تمام نشانات مٹانے کی کوشش کی۔

سعودی آفیشل نے بتایا کہ مقامی سہولت کار استنبول کا باشندہ ہے مگر اس کا نام بتانے سے انکار کر دیا۔

ترک حکام نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ خاشقجی کے قاتلوں نے ممکنہ طور پر اس کی باقیات کو استنبول سے ملحقہ بلغراد جنگل میں پھینکا ہو گا۔

اس اثنا میں ایجنٹ مصطفی مدنی نے خاشقجی کے کپڑے، عینک اور ایپل واچ پہنے اور قونصل خانے کے عقبی دروازے سے باہر نکل گیا تاکہ یہ ظاہر ہو کہ خاشقجی عمارت سے باہر گیا ہے۔ مصطفی مدنی سلطان احمد کے علاقے میں گیا جہاں اس نے ان چیزوں کو ضائع کر دیا۔

آفیشل کے مطابق اس کے بعد ٹیم نے اپنے افسران کو ایک جھوٹی رپورٹ لکھی کہ انہوں نے خاشقجی کو اس دھمکی کے بعد قونصل خانے سے جانے دیا کہ ترک حکام اس معاملے میں پڑ جائیں گے اور اسی وجہ سے وہ فوراً ملک چھوڑ گئے۔

آفیشل کے مطابق ٹیم کے تمام 15 اراکین کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور ان سے تفتیش جاری ہے۔ ان کے علاوہ تین دوسرے مقامی مشتبہ افراد کو بھی پکڑا گیا ہے۔
ناقدین اس چیز پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ بات چیت کے لیے ایک اتنی بڑی ٹیم جس میں فوجی اور فارنزک ماہر شامل ہوں، کیوں بھیجی گئی تھی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).